ایک پختون اور اس کا الیکٹرک گٹار

اپ ڈیٹ 15 جنوری 2015
کلچر ہمیشہ ترقی کرنے والی چیز ہے، اور ترقی کرتے کلچر میں نصیر اور شہاب پشتو راک کی صورت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں — فوٹو عمر عزیز
کلچر ہمیشہ ترقی کرنے والی چیز ہے، اور ترقی کرتے کلچر میں نصیر اور شہاب پشتو راک کی صورت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں — فوٹو عمر عزیز

شمال مغربی پاکستان میں آئی ڈی پیز کے ایک کیمپ میں پرانے ٹائروں سے ہنسی خوشی کھیلتے بچوں کے درمیان ایک نوجوان نصیر آفریدی امن و محبت کے گیت گا رہا ہے۔

'اگر تم مجھے پتھر مارو گے، میرے سر پر بندوق رکھو گے، تو میں بدلے میں پھول دوں گا، میں پختون ہوں۔'

نصیر کی میوزک ویڈیو میں دربدر پختون بچوں کی مسکراہٹیں اتنی دلفریب ہیں، کہ آدھی دنیا دور رہائش پذیر ایک امریکی خاتون نے نصیر سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ ان کا گانا کتنا سکون اور فرحت بخش ہے۔ انہوں نے نصیر کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی وجہ سے انہیں ان زبردست لوگوں (پختونوں) کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔

جب نصیر نے اپنا میوزک کریئر شروع کیا، تو انہوں نے یہ بالکل بھی نہیں سوچا تھا کہ اسلام آباد میں اپنے بیڈ روم میں لکھے گئے یہ بول جغرافیائی اور ثقافتی طور پر بہت دور کسی شخص کو متاثر کریں گے۔ وہ پشتو میوزک انڈسٹری میں نئے تجربوں کی کمی سے اتنے پریشان تھے کہ انہوں نے اس کی بوسیدہ حالت کے خلاف بغاوت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

پشتو میوزک میں نئی روح پھونک دینے کی ان کی خواہش نے انہیں گٹارسٹ شہاب قمر سے ملوایا، اور دونوں نے مل کر 2010 میں 'نصیر اینڈ شہاب' نامی پہلا پشتو راک بینڈ قائم کیا۔

``

اور تب سے یہ دونوں یوٹیوب ویڈیوز کے ذریعے سیکھ کر آزادانہ طور پر میوزک پروڈیوس کر رہے ہیں، جبکہ پچھلے مہینے انہوں نے ملک کے مشہور ترین میوزک پروگرام کوک اسٹوڈیو پاکستان میں بھی پرفارم کیا۔

نصیر نے مجھے بتایا کہ میوزک ان کے لیے ایک تعلیمی سفر کے جیسا رہا ہے۔

'میں لوگوں کو اس بات کی اہمیت کا احساس دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے خول سے باہر آئیں، اور کچھ نیا کر دکھائیں۔ میں جان بوجھ کر لہجے، دھن، اور اشعار کے ساتھ تجربہ کرتا ہوں۔ مجھے اپنے میوزک کے غیر روایتی ہونے پر تنقید بھی ملتی ہے، پر میں تبدیلی پر یقین رکھتا ہوں۔ کلچر ہمیشہ ترقی کرنے والی چیز ہے، اور ترقی کرتے کلچر میں میں اپنا حصہ پشتو راک کی صورت میں ڈال رہا ہوں۔'

پاکستانی میوزک میں جدت اور نئی قسمیں اسی طرح متعارف ہوتی ہیں، یعنی مغربی اور مشرقی روایات کے ملاپ سے۔ نتیجتاً ایسی چیز پیدا ہوتی ہے جو مختلف طرح سے اصلی، اور ملک کے تاریخی اور ثقافتی حقائق کی مضبوط عکاس ہوتی ہے۔

جنون گروپ، جس نے 1990 کی دہائی میں دنیا کو صوفی راک سے متعارف کروایا تھا، کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نصیر اینڈ شہاب پشتو راک میں تجربے کر کے نئی مثال قائم کرنا چاہتا ہے۔ روایتی پختون ساز 'رَباب' کو زیادہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے الیکٹرک گٹار سے تبدیل کردیا گیا ہے، جبکہ پشتو بول پاکستانی سامعین کو تازگی سے بھرپور تبدیلی فراہم کر رہے ہیں۔

نصیر اینڈ شہاب کا لوگو، جو شہاب قمر نے 2010 میں بنایا۔ الیکٹرک گٹار کے اوپر روایتی پختون پگڑی اس بات کی علامت ہے کہ گروپ ثقافتوں کے ملاپ پر یقین رکھتا ہے۔
نصیر اینڈ شہاب کا لوگو، جو شہاب قمر نے 2010 میں بنایا۔ الیکٹرک گٹار کے اوپر روایتی پختون پگڑی اس بات کی علامت ہے کہ گروپ ثقافتوں کے ملاپ پر یقین رکھتا ہے۔

میوزک بلاشبہ ثقافتوں کے تبادلے کا بہترین ذریعہ ہے کیونکہ یہ دلوں پر اثرانداز ہوتا ہے، ذہنوں کو متاثر کرتا ہے، اور سرحدوں میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ ثقافتی اقدار کے تبادلے کے لیے پرعزم نصیر آفریدی اور شہاب قمر پاکستان کے ایسے اکیلے آرٹسٹ نہیں ہیں۔

شائنا کرَیم جو پشاور میں امریکی قونصل خانے میں امریکی پبلک ڈپلومیسی آفیسر ہیں، متعدد زبانوں میں گاتی ہیں، اور حال ہی میں انہوں نے نصیر کے ساتھ ایک پشتو گانے 'زہ نہ مانم' (میں نہیں مانتا) پر ساتھ کام کیا۔

یہ گانا پختونوں کے بارے میں منفی تاثرات کو مسترد کرتا ہے، جس میں سرِفہرست انہیں دہشتگرد سمجھنا ہے۔ شمال مغربی پاکستان میں دہشتگرد حملوں کی تعداد اور شدت دیکھتے ہوئے یہ لوگوں کو یہ بتانا ضروری ہے پختون کیسے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پشتو راک اس کا ایک اہم ذریعہ ہے، جس کی مدد سے دنیا کے دیگر علاقوں تک اپنا پیغام پہنچایا جاسکتا ہے۔

نصیر مانتے ہیں کہ آرٹ پراڈکشنز کے ذریعے پاکستان کے لوگوں میں اس بات کے بارے میں آگاہی پھیلائی جاسکتی ہے کہ تبدیلی ثقافت کو نقصان نہیں پہنچاتی، بلکہ اس کی ترقی میں کردار ادا کرتی ہے۔

زہ نہ مانم گانے سے ایک فوٹو، جس میں شائنا کرَیم اور نصیر آفریدی گارہے ہیں جبکہ سرمد غفور گٹار بجا رہے ہیں — فوٹو ارشاد علی خان
زہ نہ مانم گانے سے ایک فوٹو، جس میں شائنا کرَیم اور نصیر آفریدی گارہے ہیں جبکہ سرمد غفور گٹار بجا رہے ہیں — فوٹو ارشاد علی خان

بینڈ کے اگلے پراجیکٹس میں ان کا پہلا انگلش ٹریک شامل ہے جس میں اینیمیشن بھی ہیں۔ اردو اور پشتو میں گانے تیار کرنے کے بعد یہ نیا پراجیکٹ ان دونوں کی تجربوں کی چاہ کا ثبوت ہے۔

نصیر کہتے ہیں کہ وہ کسی مخصوص علاقے تک محدود نہیں رہنا چاہتے۔

اس طرح کے اقدامات کیوں نوٹس کے قابل ہیں؟ کیونکہ پاکستان جیسے ہلچل سے بھرپور ملک میں اس بات پر روشنی ڈالنا اہم ہے کہ نئے تجربے اور باہر کی دنیا سے گھلنا ملنا ہمیشہ منفی نتائج نہیں پیدا کرتے، بلکہ ان کے ذریعے ممکنات کی ایک طویل فہرست بھی وجود میں آتی ہے۔

``

ہم وہ ہیں جو ہمارا کلچر ہے، اگر ہم اپنے کلچر کو تنہا کردیں گے تو ہم بھی تنہا ہوجائیں گے۔

میوزک ہمیں اس طرح جوڑ سکتا ہے جس طرح سیاست کبھی نہیں جوڑ سکتی۔

اور یہی وجہ ہے نصیر اور شہاب جیسے لوگوں کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Asad Jan 15, 2015 09:30pm
.I applaud your effects in writing this article
ZeeKakar Jan 16, 2015 12:45pm
Very good, We proud of these Heroes.