نائجیریا: بوکو حرام کا بدترین حملہ، دو ہزار ہلاکتوں کا خدشہ

10 جنوری 2015
بوکو حرام کے حملے کے بعد ناجیریا کے ایک قصبے کا منظر  — فوٹو: اے ایف پی
بوکو حرام کے حملے کے بعد ناجیریا کے ایک قصبے کا منظر — فوٹو: اے ایف پی

کانو: افریقی شدت پسند تنظیم بوکو حرام نے نائجیریا کے متعدد گاؤں پر حملہ کر کے عوام پر اندھا دھند فائر کھول دیے جس سے جا بجا لاشوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں اور اس ایک حملے میں دو ہزار افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔

نائجیرین حکومت کے ترجمان مائک اومیری نے بتایا ہے کہ گزشتہ روز نائجیرین بارڈر پر قائم باگا کے علاقے میں ایک بار پھر لڑائی کا آغاز ہوگیا ہے جس کہ وجہ یہ تھی عسکریت پسندوں نے ایک آرمی بیس کو 3 جنوری سے گھیرے میں لے رکھا تھا۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی اداروں نے واقعے کا جواب دیتے ہو ئے فوری طور پر آرمی کی اہم تنصیبات کی سیکیورٹی سخت کردی اور عسکریت پسندوں پر فضائی حملوں کا آغاز کردیا ہے۔

ضلع کے سربراہ بابا ابا حسین نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے علاقے میں داخل ہوتے ہی مکینوں پر دستی بم اور گولیاں برسا دیں۔ انھوں نے کہا کہ واقعے میں مرنے والوں میں اکثریت بچوں، عورتوں اور بزرگ افراد کی ہے جو اپنی جانیں بجانے کیلئے بھاگ نہ سکے۔

ابا گاوا نے غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹس پریس (اے پی) کو بتایا کہ بوکو حرام کے دہشتگردوں نے باگا کے علاقے میں انسانیت سوز قتل عام کیا ہے۔

محمد ابا گاوا بوکو حرام عسکریت پسند تنظیم کے خلاف لڑنے والی سب سے غریب سویلین جنگجوؤں کی ایک تنظیم کے ترجمان ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس قدر تھی کہ سویلین جنگجوں نے لاشوں کو گنتے ہوئے تھک کر ہار مان لی تھی۔

ایمنسٹی انڑنیشنل کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اس واقعے میں دو ہزار افراد کو قتل اور گاؤں کو مسمار کردیا گیا ہے۔

ایمنسٹی کے ایک ریسرچر ڈینیل ایری کا کہنا ہے کہ اگر یہ بات سچ ہے تو بوکو حرام کی جانب سے یہ انتہائی خونی اور ہولناک قتل عام کیا گیا ہے۔

ادھر واشنگنٹن میں قائم امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان جین پسکائی نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے نائجیریا اور اس کے پڑوسی ممالک کو بوکو حرام عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے خلاف موثر اور بر وقت اقدامات اٹھانے کا کہا ہے۔

جین کا کہنا تھا کہ بوکو حرام نائجیریا میں اس طرح کے خوفناک حملوں کے ذریعے ملک میں ہونے والے پرامن انتخابات کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتے جس کے ذریعے سے نائجیریا کی عوام اپنے مستقبل کے حکمرانوں کو تجویز کریں گئے۔

ایمنسٹی کے مطابق اس سے قبل سب سے بدترین حملہ 14 مارچ 2014 کو کیا گیا جہاں سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق میڈوگورے شہر میں گیوا کے آرمی بیرکس کے قریب ایک کشتی پر ہونے والے خونی حملے میں مسلح افراد نے بہت سے غیر مسلح افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ اس واقعے میں 600 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

واشنگٹن سے تعلق رکھنے والی ایک داخلی امور کی کونسل کے مطابق نائجیریا میں پانچ سالہ عسکری سورش میں صرف گزشتہ سال ہی 10ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

دس لاکھ سے زائد افراد نے نائجیریا کی سورش کے باعث ملک ہی کے دیگر علاقوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں اور ہزاروں نے ملک کے سرحدی علاقوں، چاد اور کیمرون کی جانب نقل مکانی کی ہے۔

امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ ماہ ان کے لئے انتہائی دشوار ثابت ہوا جب ان کو یہ اطلاع موصول ہوئیں کہ بوکو حرام کے بڑھتے ہوئے حملوں کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے والدین سے ان کے بچے بچھڑ گئے ہیں۔

یولا میں قائم کئے جانے والے پانچ امدادی کمیپوں کے رابطہ کار سعاد بیلو کا کہنا تھا کہ بوکو تنظیم کی جانب سے یولا کے علا قے میں حملوں کی وجہ سے صرف سات بچے ہی اپنے والدین کے ساتھ نقل مکانی کرسکیں ہیں جبکہ 140 کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ ان کا خاندان زندہ بھی ہے یا قتل کردیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ پر اُمید ہیں کہ آرمی نے عسکریت پسندوں سے دوبارہ بہت سے علاقے حاصل کرلے ہیں اور رہائشی امن اور بھائی چارے کے ساتھ اپنے گھروں میں رہ سکیں گے۔

یولا کے امدادی کیمپ میں موجود سلیمان داودہ نے اے پی کو بتایا کہ گزشتہ سال شدت پسندوں نے یولا کے قریبی علاقے اسکریہ اوبا میں حملہ کرکے اس کے والد کو اس کے سامنے قتل کردیا تھا اور وہ جان بچانے کیلئے جھاڑیوں میں اپنے پڑوسی کے ساتھ چھپنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ اس نے مزید بتایا کہ اس وقت سے اب تک وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کی ماں کہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں