ہندوستان: گاؤں کی لڑکیوں نے کھولا نیوز چینل

اپ ڈیٹ 03 فروری 2015
اپپن ٹی وی کی ایک نیوز رپورٹر گاؤں کی خواتین سے ان کے مسائل دریافت کررہی ہے۔ —. فوٹو بشکریہ تہلکہ ڈاٹ کام
اپپن ٹی وی کی ایک نیوز رپورٹر گاؤں کی خواتین سے ان کے مسائل دریافت کررہی ہے۔ —. فوٹو بشکریہ تہلکہ ڈاٹ کام
اپپن سماچار کی نوجوان لڑکیاں اپنی نیوز اسٹوری کو ایڈٹ کررہی ہیں۔ —. فوٹو بشکریہ تہلکہ ڈاٹ کام
اپپن سماچار کی نوجوان لڑکیاں اپنی نیوز اسٹوری کو ایڈٹ کررہی ہیں۔ —. فوٹو بشکریہ تہلکہ ڈاٹ کام

یہ جنوری کی تین تاریخ ہے۔ صبح کے دس بج چکے ہیں، لیکن آج دھوپ نہیں نکلی ہے۔ یہ ہندوستانی ریاست بہار کے ضلع مظفرپور کے ایک چھوٹے سے گاؤں كوٹھيا کا منظر ہے، اس گاؤں کے لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل کر قریب ایک خالی میدان کی طرف جارہے ہیں۔ گاؤں کے بچے بھی اچھلتے کودتے اسی جانب دوڑ رہے ہیں۔

یہاں ایک بیس بائیس برس کی نوجوان لڑکی خبریں پڑھ رہی ہے اور اس کی ٹیم یہ خبرنامے کو ریکارڈ کر رہی ہے۔ لیکن اس دوران میں بچوں کے شور مچانے کی وجہ سے اسے بار بار رکنا پڑ رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ جھنجھلاہٹ کا اظہار نہیں کررہی۔ بلکہ مسکراتے ہوئے وہ ان بچوں سے کہتی ہے، ’’تھوڑی دیر خاموش رہو۔‘‘

بچوں کے شور کی وجہ سے چار پانچ مرتبہ ریکارڈنگ رک جاتی ہے اور ہر بار ٹیم میں شامل لڑکیاں ان بچوں سے خاموش رہنے کی منت کرتی ہیں۔ بالآخر تھوڑی دیر کے بعد ریکارڈنگ مکمل ہو جاتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ گزشتہ سات سال سے جاری ہے۔ دسمبر 2007 ء میں مظفر پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے میڈیا کے اس منفرد ذریعے ’اپپن سماچار‘ کی شروعات ہوئی، جسے سات لڑکیاں مل کر چلارہی ہیں۔ وسائل کے نام پر ان کے پاس ایک سستا ویڈیو کیمرہ، اور چند اور چیزیں ہیں۔

’اپپن سماچار‘ کے پیچھے نوجوان صحافی اور سماجی کارکن سنتوش سارگ کی سوچ، جبکہ ہمت اور جذبہ ان سات لڑکیوں کا ہے جو خبروں کے لیے اپنی سائیکلوں پر گاؤں گاؤں گھومتی پھرتی ہیں، اور اس کے لیے تعاون مقامی لوگوں کا ہے،جنہیں اب ان کے اس کام سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ انہیں تو اب اپنے گاؤں کی ان رپورٹرز پر فخر ہے۔

اپپن سماچار کی ٹیم میں شامل لڑکیاں ایک ساتھ گاؤں میں اسٹوری کی تلاش میں نکلتی ہیں۔ آپس میں کبھی سنجیدہ بحث تو کبھی ہنسی مذاق کرتی ہوئی یہ لڑکیاں جب گاؤں کے درمیان سے گزرتی ہیں، تو لوگ ٹکٹکی باندھ کر انہیں دیکھتے ہیں، اچھی اسٹوری کی تلاش میں ’اپپن سماچار‘ کی ٹیم گاؤں کی کچی پکی سڑکوں اور کھیتوں کی منڈیر کے سہارے کئی کئی گھنٹے پیدل چلتی ہے۔

یہ لڑکیاں اس کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کر رہی ہیں، ان میں سے دو لڑکیاں گاؤں کے ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی ہیں، جہاں انہیں ہر مہینے محض 600 روپے ملتے ہیں۔

ان لڑکیوں کی عمر 14 سے 24 سال کے درمیان ہے، لیکن بلند حوصلے کے ساتھ یہ لڑکیاں مسلسل کام کر رہی ہیں۔ خبروں کے انتخاب اور ان کی رپورٹنگ اور ریکارڈنگ کے بعد ان لڑکیوں میں سے کوئی ایک اسے لے کر مظفر پور جاتا ہے، جو اس گاؤں سے تقریبا 50 کلو میٹر دور ہے۔ وہاں ایک اسٹوڈیو میں ان کی ایڈیٹنگ کی جاتی ہے۔ اس کے بعد خبروں کی سی ڈی گاؤں واپس آتی ہے اور اسے سی ڈی پلیئر کے ذریعے گاؤں والوں کے درمیان دکھایا جاتا ہے۔

اپپن سماچار کی لڑکیوں سے بات کرتے ہوئے علاقے کی خواتین بلاجھجک اپنے مسائل بیان کردیتی ہیں، کیونکہ یہ لڑکیاں ان کی زبان میں ہی ان سے سوالات کرتی ہیں۔

اپپن سماچار کی نوجوان رپورٹرز اسٹوریز کی تلاش میں گاؤں گاؤں پیدل یا سائیکل پر سفر کرتی ہیں۔ —. فوٹو بشکریہ تہلکہ ڈاٹ کام
اپپن سماچار کی نوجوان رپورٹرز اسٹوریز کی تلاش میں گاؤں گاؤں پیدل یا سائیکل پر سفر کرتی ہیں۔ —. فوٹو بشکریہ تہلکہ ڈاٹ کام

سوال یہ ہے اتنی محنت سے اس نیوز کے ذریعے کو چلانے کی ضرورت کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ٹیم کی ایک رکن سویتا کہتی ہیں، ’’بڑے نیوز چینل نہ تو ہمارے گاؤں تک پہنچ پاتے ہیں اور نہ ہی وہ ہم لوگوں کی روزمرہ کی پریشانیاں کے بارے میں پروگرام دکھاتے ہیں۔ ایسے حالات میں ہمیں اپنی مسائل پر بات کرنے اور اسے اپنے لوگوں کو دکھانے میں خوشی محسوس ہوتی ہے۔‘‘

سویتا کی اسی بات کو ٹیم کی دوسری رکن ممتا نے یوں آگے بڑھایا ’’اس طرح کی خبر ہم ہی دکھا سکتے ہیں۔ بڑے بڑے چینلز کو بڑے بڑے مسائل درکار ہیں، وہ ہمارے مسائل کی رپورٹنگ نہیں کرتے ہیں۔‘‘

یوں باتوں باتوں میں ممتا یہ احساس دلاتی ہیں کہ بڑے چینل صرف شہروں تک محدود ہو گئے ہیں۔ اور وہ انتخابات یا کسی بڑی آفت کے موقع پر ہی کسی گاؤں میں پہنچتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی خبروں کا اثر بھی ہوا ہے، انہوں نے بتایا ’’کسان کریڈٹ کارڈ فراہم کرنے کے لیے کسانوں سے پیسے وصول کیے جا رہے تھے۔ ہم نے خبر بنائی اور گاؤں کے لوگوں کو دکھائی۔ ہم نے بینک منیجر سے سوال کیا۔ ہماری خبر کی وجہ سے علاقے کے کسانوں کو کسان کریڈٹ کارڈ مفت مل گئے۔ قریبی اسکول میں کمروں کی تعمیر گھٹیا قسم کی اینٹوں سے کی جارہی تھی، ہم نے اس کی رپورٹنگ کی اور اس وجہ سے اینٹوں کی پوری کھیپ واپس بھیجی گئی۔ جب ہماری وجہ سے کچھ اچھا ہوتا ہے، کسی کو اس کا حق ملتا ہے، تو ہم سب کو بہت خوشی ہوتی ہے اور اس خوشی کے لیے ہم زیادہ محنت کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

اس ٹیم کی خبروں سے جتنا اثر ہوا، وہ تو ہے ہی، اصل تبدیلی تو ان کے باہر نکلنے اور سوال کرنے سے آئی ہے۔ اس پورے علاقے میں بیٹیوں کے حوالے سے سوچ تبدیل ہوئی ہے۔ اب لڑکیوں کو پڑھانے اور انہیں قابل بنانے کی سوچ پیدا ہو رہی ہے۔ اس بارے میں سنتوش بتاتے ہیں، ’’یہ علاقہ نکسل باغیوں سے متاثر رہا ہے۔ شام ہوتے ہی اس علاقے میں آمدورفت بند ہو جاتی تھی، لڑکیوں کا پڑھنا لکھنا تو دور کی بات تھی۔ آج صورتحال ایسی نہیں رہی ہے۔ آج لڑکیاں پڑھ رہی ہیں۔ دراصل پہلی مرتبہ علاقے کے لوگ یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے گاؤں کی لڑکی بینک منیجر سے لے کر بی ڈی او تک سے سوال کر رہی ہے۔ وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ان کے سوال کرنے سے ان کی زندگی کی دشواریاں کچھ کم ہوئی ہیں۔‘‘

لیکن یہ کوشش اتنی آسان نہیں ہے۔ خبروں کی تلاش میں نكلنےوالی لڑکیوں اور سنتوش کے سامنے اس دوران کئی طرح کی رکاوٹیں بھی آئیں، لیکن ان کے بلند حوصلے کے سامنے یہ پریشانیاں ختم ہوتی گئیں۔ سنتوش کہتے ہیں ’’وسائل کے معاملے میں ہم شروع سے کمزور ہیں۔ اس کی وجہ سے کچھ پریشانی ہوتی ہے، لیکن اس کمی کی وجہ سے یہ کوششیں کم نہیں ہوں گی ۔‘‘

ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے، امریکا کی ایک این جی او نے اپپن سماچار کی ٹیم سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپپن سماچار کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں۔ سنتوش کہتے ہیں’’ہم نے ان کا خیرمقدم کیا۔ لڑکیاں بھی خوش تھیں، لیکن جب وہ لوگ آئے تو پتہ چلا کہ اس تعاون کے بہانے وہ ہماری پوری محنت کو ہتھيانا چاہتے ہیں۔ ہم نے لڑکیوں کے سامنے یہ سارا معاملہ رکھ دیا اور کہا کہ وہ ووٹنگ کر لیں۔ لڑکیوں اور گاؤں والوں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ ہم تعاون ضرور چاہتے ہیں، لیکن کوئی ہماری قیمت لگائے، یہ ہمیں قطعی منظور نہیں ہے۔‘‘

ہندی سے ترجمہ، بشکریہ تہلکہ ڈاٹ کام

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں