سپریم کورٹ نے اکیسویں ترمیم کے مقدمے کی سماعت آج (منگل) دوبارہ شروع کردی۔ گزشتہ مہینے سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر کی جانب سے آئین کی اکیسویں ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کی تشکیل کے خلاف دائر کی جانے والی پٹیشن کو سماعت کے لیے منظور کیا تھا ۔

ان درخواست گزاروں میں سے کچھ نے دلیل دی گئی کہ عدالتی نظام کے متوازی فوجی عدالتوں کے قیام کا یہ اقدام آئین کی اہم خصوصیات کے خلاف جائے گا، جو منصفانہ سماعت کے حق کی ضمانت دیتی ہیں۔

ڈان نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر سے اس ترمیم پر ایس سی بی اے کے مؤقف کے بارے میں بات کی، جو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پٹیشن سے مختلف ہے۔

مؤخرالذکر نے اس ترمیم کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کی بنیاد پر اس ترمیم کو چیلنج کیا تھا، جسے اکیسویں ترمیم کے ذریعے متاثر کیا گیا ہے۔ یہ دلیل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پٹیشن کا حصہ نہیں ہے۔

سوال: اس ترمیم کو چیلنج کرنے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا مؤقف لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے مؤقف سے کیوں مختلف ہے؟

عاصمہ جہانگیر: یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کو کسی آئینی ترمیم کو ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے؟ جیسا کہ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنی پٹیشن کے ذریعے درخواست دی ہے کہ جبکہ پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر بالادستی حاصل ہے۔

سپریم کورٹ ایک قانون کو تو ختم کرسکتی ہے، لیکن آئینی ترمیم کو ختم نہیں کرسکتی۔ تاہم سپریم کورٹ کے ججز کو کسی ترمیم کی تشریح کرنے کااختیار حاصل ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ان سے اس کی ہی توقع رکھتی ہے، اور ہم نے اپنی پٹیشن کے ذریعے عدالت سے اسی بات کی درخواست کی ہے۔

سوال: کیا عدلیہ آئین کی اہم خصوصیات یا بنیادی ڈھانچے کا تعین کرسکتی ہے، یا یہ صرف پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں آتا ہے؟

عاصمہ جہانگیر: جب ہم عدالت میں آئین کے بنیادی ڈھانچے یا اہم خصوصیات پر بحث کرتے ہیں، تو دراصل ہم ججز کو مستقبل کے آئین کی نوعیت کا تعین کرنے کا اختیار دینے کی بات کرتے ہیں، جو کہ عدالت کا کام نہیں ہے۔ یہ خاص طور پر اس وقت سے ایک مسئلہ بن گیا ہے، جب سے آمروں کی جانب سے آئین میں متعدد مرتبہ ترمیم کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر وفاقی شرعی عدالت ضیاء الحق کے فوجی دورِ حکومت میں متعارف کرائی گئی، اور اس کے بعد آٹھویں ترمیم کو بنیادی ڈھانچے کا حصہ بنا کر اس کا تحفظ کیا گیا یا نہیں؟ اسی طرح جنرل مشرف کی جانب سے متعارف کرائی گئیں شقوں کے ذریعے عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے لیے گریجویشن کی ڈگری کو لازم قرار دیا گیا، ایسے ملک میں جہاں زیادہ تر لوگ گریجویٹ نہیں ہیں، اس کو بھی بنیادی ڈھانچے کا حصہ بنایا گیا یا نہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو اس آئین میں بنیادی تبدیلیاں درکار ہیں۔

سوال: اگر سپریم کورٹ یہ فیصلہ دیتی ہے کہ صرف عدلیہ ہی آئین کے بنیادی ڈھانچے کی تشریح کرسکتی ہے تو پھر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

عاصمہ جہانگیر: پارلیمنٹ کی اتھارٹی اور اختیار تیزی سے محدود ہوجائے گا۔ مستقبل میں پارلیمنٹ کی جانب سے ہر ایک آئینی ترمیم کو منظور کروانا ایک چیلنج بن جائے گا۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں عدلیہ نے آئین کی بعض اہم خصوصیات کے سلسلے میں فیصلے دیے ہیں، لیکن اس پر بہت زیادہ تنقید بھی کی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید Feb 25, 2015 01:22pm
یہاں میں ایک چیز واضح کرنا دینا چاہتی ہوں کہ ہم امریکا اور برطانیہ کے آئین سے کافی حد تک متاثر ہیں اور یہ ہم جیسی ایک نئی مملکت کے لئے یہ ضروری بھی تھا کہ کامیاب مملکتوں کے قوانین اور آئین سے بھی استفادہ کریں ، تاہم ایک چیز جس کی مجھے ابھی بھی کمی محسوس ہوتی ہے کہ آج تک ہمارے کسی ادارے کو مناسب طریقے تک کام نہین کرنے دیا گیا ، مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ اصل میں تین اہم ادارے ہیں لیکن انتظامیہ نے اپنے اختیارا ت کا بے دریغ استعمال کیا اور قابل افسوس یہ ہے کہ سب سے زیادہ زیادتی پارلیمان کے ساتھ ہوئ ہے کہ یہاں ہمارے ممبران کو قوانین نہیں بنانے دئیے جاتے اس کا دائرہ کار محدود کردیا جاتا ہے ، عدلیہ کو اختیارات دینا یقینا ایک مستحسن اقدام تو ضرور ہے اور میں عدالت عظمی سمیت تمام عدالتوں سے انصاف کی فراہمی کی توقع ہی رکھتی ہوں لیکن طاقت کا توازن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے یہاں ہم برطانیہ میں نہیں رہتے ، کہ قانون کی حکمرانی ہو جہاں سولسٹر کی بھی بڑی حثییت ہے یہاں وکلا اور ججوں کی جانوں کو کیا تحفظ ہے ؟ یہ بھی ہے کہ اگر عدالتوں کو ہی سب اختیارات دئیے گئے تو ججوں میں بھی مطلق العنان بننے کا رحجان ضرور جنم لے گا ۔ ۔۔۔۔۔