پی پی پی کے ناراض رہنماؤں کی نئی سیاسی جماعت

09 مئ 2015
پیپلزپارٹی کے ناراض رہنما صفدر عباسی اور ان کی اہلیہ ناہید عباسی۔ —. فائل فوٹو اے پی پی
پیپلزپارٹی کے ناراض رہنما صفدر عباسی اور ان کی اہلیہ ناہید عباسی۔ —. فائل فوٹو اے پی پی

اسلام آباد: پیپلزپارٹی کے ناراض رہنماؤں نے اس عزم کے ساتھ ایک نئی پارٹی تشکیل دی ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی سابق چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے ورثے کو بچانے کی کوشش کریں گے۔

پاکستان پیپلزپارٹی ورکرز (پی پی پی-ڈبلیو) کے نام سے الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ کروائی جانے والی اس سیاسی جماعت کے قیام کا باضابطہ اعلان اس کے صدر صفدر عباسی نے ایک پریس کانفرنس میں کیا۔

اس موقع پر دیگر لوگوں کے علاوہ ان کی اہلیہ ناہید خان، ساجدہ میر (پی پی پی-ڈبلیو کی سیکریٹری جنرل )، رانا رضوی، عذرا بانو، صبیحہ سید، ابن رضوی، ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل احسان، فیاض خان، رائے قیصر، ایس ایچ بخاری، نواب خٹک اور پی پی یوتھ ونگ کے سابق صدر شکیل عباسی بھی ان کے ہمرہ تھے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صفدر عباسی نے کہا ’’ہمیں یقین ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کی بدترین شکست اور اس پر غالب انتشار کے سراسر ذمہ دار اس کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ہیں۔ لہٰذا ہم اس کو بچانے کے لیے آگے بڑھے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا ’’ناصرف ذوالفقار مرزا اور فہمیدہ مرزا بلکہ ہم پیپلزپارٹی کے ان تمام رہنماؤں سے رابطہ کریں گے، جو بے نظیر بھٹو کے نظریے کی پیروی کرتے ہیں لیکن انہیں 2007ء کے بعد دیوار سے لگادیا گیا تھا۔‘‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف کیوں اتحاد بنایا جارہا ہے، تو سابق سینیٹر نے کہا ’’ہم ان لوگوں کا محاسبہ چاہتے ہیں، جو پیپلزپارٹی کے زوال کے ذمہ دار ہیں۔‘‘

پیپلزپارٹی کے ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ صفدر عباسی اور ان کے ساتھیوں نے سندھ کے سابق وزیرداخلہ ذوالفقار مرزا اور ان کی اہلیہ کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی تھی اور ان سے کہا تھا کہ جو کچھ بھی ان کے خلاف کیا جارہا ہے، وہ بلاجواز ہے۔

یاد رہے کہ اس ہفتے کی ابتداء میں پیپلزپارٹی نے سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کے نام پارٹی کے قواعد کی خلاف ورزی پر ایک شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔

بدین میں فہمیدہ مرزا نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی تھی، جس میں بظاہر انہوں نے اپنے شوہر کو تحفظ دینے کی کوشش کی تھی۔

ذوالفقار مرزا نے آصف علی زرداری کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ صفدر عباسی بابر اعوان اور ڈاکٹر اسرار شاہ جیسے پیپلزپارٹی کے دیگر ناراض رہنماؤں سے بھی رابطہ کریں گے۔

پیپلزپارٹی کے بعض اراکین اپنی قیادت پر الزام عائد کرتے ہیں کہ اس نے پیپلزپارٹی کے چار سالہ دورِحکومت کے دوران پارٹی ورکروں کو نظرانداز کردیا تھا۔

وہ یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ اسی بنا پر بہت سے پرانے اور پرعزم کارکنان پارٹی چھوڑ گئے تھے اور پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

راولپنڈی میں یونین کونسل کے تین سابق نائب ناظم عمران حیات، چوہدری مجید اور سجاد عباسی 2013ء میں پیپلرپارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے تھے۔

پیپلزپارٹی کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ڈان کو بتایا کہ صفدر عباسی کے اقدام اور ان ذوالفقار مرزا کے ساتھ حالیہ رابطوں کے بارے میں پارٹی کو علم تھا۔

انہوں نے کہا ’’ہم جانتے ہیں کہ ہمارے مخالفین اکھٹا ہورہے ہیں، لیکن ہم نے کوئی ردّعمل ظاہر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ کس طرح آگے بڑھتے ہیں۔‘‘

صفدر عباسی نے الزام عائد کیا کہ آصف علی زرداری نے فروری 2013ء کے دوران لاہور ہائی کورٹ میں دوہرے عہدے کے مقدمے میں پیپلزپارٹی سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا اور اپنی صدارت بچانے کے لیے اسے ایک این جی او یا ایک نجی ایسوسی ایشن قرار دیا تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مزید خاموش رہنا مجرمانہ عمل ہوگا، اور اس معاملے کو الیکشن کمیشن میں لے گئے۔ الیکشن کمیشن نے ہمیشہ کی طرح ہیرا پھیری سے کام لیا اور فیصلہ لطیف کھوسہ کے حق میں دے دیا تھا۔ جبکہ انہوں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کی گئی آخری تاریخ کے بعد رجسٹریشن کے لیے درخواست دی تھی۔‘‘

صفدر عباسی نے کہا ’’بعد میں ہم نے ’پیپلزپارٹی کی غیرقانونی رجسٹریشن‘ کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ یہ مقدمہ دو برس سے زیرِالتواء پڑا ہے، اور اس سماعت کے لیے دی گئی متعدد درخواستوں کے باوجود جب سے اب تک کوئی باضابطہ سماعت نہیں ہوئی ہے۔‘‘

اس سوال پر کہ اگر عدالت نے پیپلزپارٹی کو ناراض رہنماؤں کے ہاتھوں میں دینے کا فیصلہ دے دیا تو آپ کیا کریں گے، تو صفدر عباسی نے کہا کہ اس صورت میں پی پی پی-ڈبلیو پیپلزپارٹی میں ضم ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پی پی پی-ڈبلیو کو رجسٹرڈ کروانے کے تین اہم مقاصد تھے، اوّل یہ کہ حقیقی نظریاتی اور جمہوری خطوط پر پارٹی کی تنظیم نو کی جائے، دوئم پیپلزپارٹی کی موجودہ حالت کے ذمہ دار افراد کا محاسبہ کیا جائے، اور سوم یہ کہ ہر سطح پر پارٹی کے اندرونی انتخابات کا انعقاد کرواکر اسے جمہوری اور ادارہ جاتی صورت دی جائے۔

بعد میں صفدر عباسی نے اپنی پارٹی کا منشور پیش کیا، جس میں دہشت گردی سے لے کر مدرسوں کی اصلاحات، اقلیتوں کے حقوق، تعلیم، طرزحکمرانی، انتخابی اصلاحات، پالیسی نظام، معیشت، زراعت، خارجہ پالیسی، دفاع، صحت، لیبر، میڈیا اور توانائی سمیت بہت سے اہم قومی مسائل کا احاطہ کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید May 09, 2015 01:03pm
پیپلز پارٹی کے ناراض اور نظرانداز کئے گئے تمام کارکنوں کو بہت پہلے ہی اپنی ایک الگ جماعت کی تشکیل کر دینی چاہیے تھی ، کیونکہ صفدر عباسی ، ابن رضوی اور کئی دیگر راہنما پیپلز پارٹی کے اچھے اور برے وقت کے ساتھی تھے لیکن جب انھیں اپنی ہی بنائی ہوئی پارٹی میں سے بےدخل کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی تو آخر کوئی ردعمل تو ان کی جانب سے بھی ہونا تھا ، صفدر عباسی نے گذشتہ دنوں میں یہ براہ راست کہاہے کہ آصف زرداری کو پیپلز پارٹی ایک امانت کی صورت میں دی گئی تھی جس کا انھوں نے بیڑا غرق کر دیا ، پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک جو کم سے کم بھی اڑتیس فیصد تھا وہ بھی ملک بھی میں کم ہو کر صرف پندرہ فیصد رہ گیا ، بات تو ان کی سو فیصد درست ہے ، جہاں تک بات رہی صفدر عباسی کے ذوالفقار مرزا سے رابطوں کی ان کے تعلقات پہلے بھی کبھی برے نہیں رہے ہاں آصف زرداری کے ساتھ مرزا صاحب کے تلعقات دو ہزار گیارہ سے ہی کشیدہ ہیں جب انھوں نے زرداری کی پالیسی اور ایم کیوایم کی حمایت سے ان سے اختلاف کیا تھا ۔۔ اب ایک اہم پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو اہمیت دے کر ہی پارٹی کو پھر سے زندہ کیا جا سکتا ہے یہی واحد حل ہے ۔