پانی کی بیویاں، ہندوستانی گاؤں کی انوکھی روایت

05 جون 2015
سکھا رام بھگت کی دو بیویاں سکھری اور بھاگی پانی کے برتن سر پر اُٹھائے اس کے پیچھے چل رہی ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز
سکھا رام بھگت کی دو بیویاں سکھری اور بھاگی پانی کے برتن سر پر اُٹھائے اس کے پیچھے چل رہی ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز

ممبئی: ہندوستانی ریاست مہاراشٹر کے خشک سالی سے متاثرہ علاقے وداربھا کے ایک گاؤں دینگانمل میں کہیں بھی پانی کے نلكے نہیں نظر آتے ہیں۔ اس گاؤں کے لوگ پینے کا پانی دو کنووں سے حاصل کرتے ہیں، جو ایک پہاڑ کے نیچے واقع ہے۔

گاؤں کے لوگ یہاں پہنچنے کے لیے گھنٹوں پیدل چلتے ہیں، اور کنویں پر اپنی باری کا انتظار کرنے کے لیے بھی گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے.

اس مشکل سے نجات کا حل گاؤں کی پنچایت نے یہ نکالا ہے کہ پانی لانے کے لیے گاؤں کے مردوں کو مزید دو شادیاں کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

اس گاؤں کے ایک کسان سكھارام بھگت کی تین بیویاں ہیں، تکی، سكھری اور بھاگی۔

ان میں سے ایک کو باضابطہ طور پر بیوی کا درجہ حاصل ہے، باقی دو پانی کی بیویاں کہلاتی ہیں۔

پانی کی بیویاں کہلانے سے مراد یہ ہے کہ گھر کے استعمال کے لیے طویل فاصلے سے پانی بھر کر لانا ان کی ذمہ داری ہے۔

سكھارام نے پہلی بیوی کے ہونے کے باوجود دو مزید شادیاں صرف اس لیے کیں تاکہ دونوں گھر کے استعمال کے لیے پانی لاسکیں۔

اپنی تین شادیوں کے بارے میں اس کا کہنا ہے’’میری پہلی بیوی اپنے بچوں کے کام کاج میں مصروف رہتی ہے۔ پانی لانے کے لیے میں نے دوسری شادی کی تھی، لیکن اس بیماری کی وجہ سے مجھے تیسری شادی کرنی پڑی۔‘‘

نام دیو کی دوسری بیوی گاؤں سے طویل فاصلے پر موجود کنویں سے پانی بھر کر اپنے گھر لے جارہی ہے۔ —. فوٹو رائٹرز
نام دیو کی دوسری بیوی گاؤں سے طویل فاصلے پر موجود کنویں سے پانی بھر کر اپنے گھر لے جارہی ہے۔ —. فوٹو رائٹرز

سكھارام بھگت اسی گاؤں میں کھیتوں میں مزدوری کرکے اپنا گزر بسر کرتا ہے۔ اس کے گھر میں روزانہ تقریباً 100 لیٹر پانی خرچ ہوتا ہے۔ کئی چکر لگانے پر یہ ضرورت پوری ہوتی ہے۔

اس نے بتایا’’پہلی بیوی شادی کے فوراً بعد حاملہ ہو گئی تھی، اور کنویں سے پانی نہیں لا سکتی تھی چنانچہ دوسری شادی کی، اس کی عمر زیادہ تھی، کچھ عرصے بعد اس کے لیے بھی کنویں سے پانی بھر کر لانا مشکل ہوگیا۔ لہٰذا تیسری شادی کرنی پڑی۔

سکھارام کی تیسری بیوی کی عمر صرف 26 سال ہے اور اس سے پہلے شوہر کی وفات ہو چکی ہے۔

اس کی تینوں بیویاں ایک ہی گھر میں رہتی ہیں۔ پہلی کے ذمے بچوں کے کام ہیں، جبکہ دوسری گھر کے باقی کام کرتی ہے۔

پہلی کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ باقی دونوں کی ضروریات کا خیال رکھے۔ ان میں اکثر جھگڑے بھی ہوجاتے ہیں۔ پھر بھی بعد کی دونوں بیویاں خوش ہیں۔

اس گاؤں میں لڑکی کی پیدائش پر خوشی منائی جاتی ہے، کیونکہ گاؤں والوں کا خیال ہوتا ہے کہ پانی بھرنے کے لیے ایک رکن کا اضافہ ہوگیا ہے۔

تاہم گاؤں کی عورتوں کو امید ہے کہ جب ان کی بیٹیاں جوان ہوں گی تو ان کے گاؤں میں بھی پانی کے نل لگ جائیں گے۔

ہندوستان کی تیسری سب سے بڑی ریاست مہاراشٹر کے بارے میں گزشتہ سال کے سرکاری تخمینے کے مطابق 19 ہزار سے زیادہ گاؤں کے لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں ہے۔

مون سون کی بارشوں کے کمزور اوسط کے امکان کی وجہ سے ہندوستان کو اس سال دوبارہ خشک سالی کے خطرے کا سامنا ہے۔

مہاراشٹر کے اس گاؤں میں پانی بھرنے کا مشقت بھرا کام صرف خواتین ہی کی ذمہ داری ہے۔ —. فوٹو رائٹرز
مہاراشٹر کے اس گاؤں میں پانی بھرنے کا مشقت بھرا کام صرف خواتین ہی کی ذمہ داری ہے۔ —. فوٹو رائٹرز

ڈینگانمل گاؤں میں بنجر زمین کے ایک حصے پر تقریباً 100 کچے گھر موجود ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر کسان کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں، اور بہت معمولی آمدنی میں بمشکل گزارا کرپاتے ہیں۔

اس گاؤں کے ایک فرد کا کہنا ہے کہ پانی کے لیے شادی یہاں کئی سالوں سے روایت چلی آرہی ہے۔

یاد رہے کہ ایک سے زائد شادیاں ہندوستان میں غیرقانونی ہیں، لیکن اس گاؤں میں ’’پانی کی بیویاں‘‘ عام ہیں۔

ڈینگانمل گاؤں کے ایک اور فرد نام دیو کا کہنا ہے کہ بڑا خاندان رکھنا آسان نہیں ہے، اور خاص طور پر اس صورت میں جب کہ پانی ہی دستیاب نہ ہو۔ نام دیو کی بھی دو بیویاں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں