کراچی کی دلپسند چنا چاٹ

22 جولائ 2015
سبطین اور شہروز نے اپنی ذمہ داریوں کو تقسیم کرلیا ہے، ایک دہی بڑے پیک کرتا ہے اور دوسرا دہی کو مکس کرنے کا کام کرتا ہے— فوٹو زویا انور
سبطین اور شہروز نے اپنی ذمہ داریوں کو تقسیم کرلیا ہے، ایک دہی بڑے پیک کرتا ہے اور دوسرا دہی کو مکس کرنے کا کام کرتا ہے— فوٹو زویا انور

زور دار سائرن عام طور پر کسی ہنگامی حالات کی علامت ہوتے ہیں مگر کراچی کے علاقے انچولی میں ایک سائرن کے ذریعے وہاں کے رہائشیوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ انچولی دل پسند چاٹ کاروبار کے لیے کھل چکی ہے۔

یہاں کے رہائشیوں میں عرف عام ' شاہد کی چاٹ' سے معروف یہ جگہ اصل مالک کے پوتوں سبطین اور شہروز نے سنبھال رکھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب برصغیر کے بعد یہاں لوگ رہنے کے لیے آئے۔

مگر اس کو چلانے والے خود بتاتے ہیں اس مشہور چاٹ کی بنیاد چالیس سال پہلے رکھی گئی۔ سبطین کے مطابق " اس کا آغاز 1978 میں اس وقت ہوا جب ہمارے دادا محمد اسماعیل نے ایک ٹھیلا لگا کر چھولوں کی چاٹ فروخت کرنا شروع کی"۔

ہوسکتا ہے کہ چنے کی چاٹ کا سن کر متعدد افراد اسے زیادہ اہمیت نہ دیں مگر شاہد کی چاٹ کوئی عام چاٹ نہیں۔ یہ روایات سے ہٹ کر ہے اور اس میں انتہائی باریکی سے کٹی پیاز، سبز مرچیں اور ٹماٹروں کو آٹے سے بنے پاپڑ کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، جیسا کہ سبطین وضاحت کرتے ہیں " دیگر چنا چاٹ کے مقابلے میں ہم نے اب تک سادی چٹنیوں اور چنوں کو استعمال کیا ہے جنھیں گھر پر ابالا جاتا ہے"۔

اس چاٹ کی ایک پلیٹ کی قیمت 50 روپے ہے اور کم از کم روزانہ سو صارفین تو اسے ریڑھی سے خریدتے ہیں جن میں سے اکثریت دو یا کئی بار تو پانچ پلیٹیں بھی گھر لے جاتے ہیں۔

مگر جب چاٹ کو بنانے کی ترکیب کے بارے میں پوچھا گیا تو ایسا نظر آنے لگا کہ سبطین اور اس کے ساتھی عام اجزاءکی تیاری کے طریقہ کار سے متعلق سوالات سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔

سبطین کا کہنا تھا " ہمارا کام اچھا چلنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم تمام بنیادی اجزاءگھر میں تیار کرتے ہیں، ہماری میٹھی چٹنی، ایک کھٹی چٹنی، کچھ میٹھا دہی اور ہمارے اپنے دال سے بنے دہی بڑے ایک بہترین پلیٹ تیار کرتے ہیں"۔

کچھ صارفین بھی ریڑھی کے پاس اکھٹے ہوکر بتانے لگے کہ کس طرح انہوں نے یہ چاٹ اپنے گھروں میں بنانے کی کوشش کی اور شاہد چاٹ جیسا ذائقہ پیدا کرنے میں ناکام رہے۔

یہاں اسٹال پر شور شرابہ اور ہلچل بالکل واضح تھی کیونکہ ریڑھی کے ارگرد لمبی قطار جو لگی ہوئی تھی جبکہ اس کے مالکان ایک چھوٹی شفاف پلاسٹک بیگ کو ہاتھ میں لے کر اس میں مختلف رنگوں کی ساسز چنوں پر ڈال رہے تھے، ایک سفید محلول، پاپڑ اور دیگر کو شامل کرکے آخر میں ایک ربڑ بینڈ سے اسے بند کرکے صارف کو تھما رہے تھے۔

اس چاٹ کی مقبولیت کا اندازہ دو سے تین گھنٹے تک کھلا رہنے کے دوران بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جیسے ہی شام پانچ بجے اس ریڑھی پر کام کا آغاز ہوتا ہے صارفین جمع ہوجاتے ہیں اور رمضان کے دوران تو ریڑھی پر کام کے لیے تین مددگاروں کی ضرورت پڑتی ہے جن میں مختلف کام تقسیم کردیئے جاتے ہیں، جیسے ایک پاپڑ کے چھوٹے ٹکڑے کررہا ہوتا ہے، ایک لین دین میں مشغول ہوتا ہے جبکہ دیگر پلاسٹک بیگز صارف کے آرڈر کے مطابق بنانے میں مصروف ہوتے ہیں۔

فوٹو زویا انور
فوٹو زویا انور

" ہمارے پاس روزانہ سو سے زائد صارفین آتے ہیں اور رمضان کے موقع پر ہماری فروخت میں دو سے تین گنا اضافہ ہوجاتا ہے اور منافع بھی بڑھ جاتا ہے، مگر کوئی حتمی اعدادوشمار بتانا مشکل ہے کیونکہ ہر دن مختلف ہوتا ہے۔ مگر ایک بات کی یقین دہانی کراسکتا ہوں کہ ہمارا منافع ہماری سرمایہ کاری سے تین سے چار گنا زیادہ ہوتا ہے اور یہ اللہ کا ہم پر کرم ہے"۔

چونکہ طلب بہت زیادہ ہے اس لیے شاہد کے پوتوں کی جانب سے بڑے آرڈرز کو انکار کردیا جاتا ہے اور اپنی معمول کی فروخت پر توجہ دی جاتی ہے۔ اگرچہ اس علاقے میں متعدد چھوٹے کاروبار موجود ہیں جبکہ نجی یا حکومتی ملازمتوں کی بھی بھرمار ہے مگر یہ دونوں نوجوان اپنے خاندانی کاروبار کو ہی آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔

زندگی کے تلخ حقائق نے بھی ان کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔

اسی علاقے میں پلنے بڑھنے والے سبطین کے ایک پرانے دوست نے بتایا " عام طور پر رمضان میں یہ لوگ اپنی چاٹ شام پانچ سے سات بجے تک فروخت کرتے ہیں جبکہ دیگر دنوں میں وہ شام چھ بجے سے رات نو بجے تک کام کرتے ہیں، بائیس نومبر 2013 کی شب یہ دونوں بھائی اپنا کام سمیٹ کر گھر کی جانب جا رہے تھے کہ انچولی دو دھماکوں سے گونج اٹھا، جو کہ ان کے اسٹال سے کچھ فٹ کے فاصلے پر ہوا اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان کی ریڑھی تباہ ہوگئی، حکومتی انتظامیہ کے سامنے کئی بار کلیمز کے باوجود انہیں کچھ بھی نہیں دیا گیا، ہم شکر گزار ہیں کہ وہ اپنی زندگیوں سے محروم نہیں ہوئے جیسے ہمارے دس نوجوان ہوئے"۔

مگر یہ سانحہ ان کی ہمت کو توڑ نہیں سکا اور دونوں بھائی ایک بار پھر اپنی چاٹ کے ساتھ اسی طرح واپس آگئے جیسے دیگر لوگوں نے اپنے کاروبار دوبارہ شروع کیے۔

اسٹال کھلنے کے ڈیڑھ گھنٹے کے اندر ہی دہی، پاپڑی، چنے اور چٹنیاں سب ختم ہوگئے یا بہت کم تعداد میں رہ گئے۔ متعدد صارفین نے انہیں چاٹ فروخت کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ سطین نے سب مرد، خواتین اور بچوں کو صاف انکار کردیا۔

پان کو چباتے ہوئے سبطین کو ایک خاتون کو انکار کرتے ہوئے مشکل کا سامنا ہوا جو صرف ایک پلیٹ کے حصول پر اصرار کررہی تھی، اس نے فخریہ انداز میں کہا " یہ چاٹ نہ صرف اس علاقے میں مقبول ہے بلکہ پورے شہر سے لوگ یہاں آتے ہیں اور رمضان میں ان کے آرڈر ڈبل ہوجاتے ہیں، اب چاہے ڈیفنس ہو، جوہر یا ماڑی پور ہماری چاٹ کے چاہنے والے ہر کونے میں موجود ہیں"۔

افطار کا وقت قریب آنے پر سطین کے مددگاروں نے جگہ کو صاف کرنا شروع کردیا " اگرچہ ہماری ابھی تک شادی نہیں ہوئی مگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اچھی تعلیم حاصل کرکے اچھے اداروں میں کام کریں، میں اپنے بچوں کو چاٹ فروخت کرتے نہیں دیکھ سکتا"۔

متعدد افراد نے اسے کہا کہ وہ اس علاقے کے اپنی طرز کی منفرد چاٹ سے محروم کردے گا مگر وہ بس مسکراتا رہا۔

جب اس سے پوچھا گیا کہ ریڑھی کے لیے چھوٹے چھوٹے کام جیسے پلاسٹک بیگز لانا، چٹنیوں کی تیاری اور بڑی تعداد میں دہی کو مکس کرنا کون کرتا ہے تو سطبین واضح طور پر اس سوال سے پریشان نظر آیا اور اس نے کہا کہ ہر ایک اپنا کام پوری جانفشانی اور بہترین انداز سے کرتا ہے۔

اس کے پرانے دوست نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ آخر کیوں وہ ایک لڑکی سے شادی نہیں کرسکا جو چاٹ کو پسند کرتی تھی مگر اس نے یہ کہہ کر سبطین کو مسترد کردیا کہ وہ بھی دیگر چاٹ والوں جیسا ہے۔ اس کی محبت کی کہانی کے بارے میں تو کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا مگر اس کی چاٹ فوڈ لورز میں ضرور ساکھ رکھتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Canadawala Jul 23, 2015 08:43am
Have they every paid any tax?..Have they kept the record of their income.? It seems this was not done.
Baber malik Jul 23, 2015 09:28am
Now FBR send him Income Tex Notice.