’افغانستان میں داعش کے حمایتی غیر ملکی جنگجو‘

29 اگست 2015
افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ نگر ہار میں داعش کے نام سے سرگرم تنظیم کے کارکن غیر ملکی ہیں — فائل فوٹو/ رائٹرز
افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ نگر ہار میں داعش کے نام سے سرگرم تنظیم کے کارکن غیر ملکی ہیں — فائل فوٹو/ رائٹرز

کابل: افغانستان کے سب سے بڑے عسکریت پسند گروپ طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں داعش کے نام سے سرگرم تنظیم کے تمام جنگجوؤں کا تعلق افغانستان سے نہیں ہے۔

افغان خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ’داعش کے نام سے افغانستان میں کام کرنے والی تنظیم ننگر ہار کے صرف دو اضلاع میں سرگرم ہے'.

داعش کے افغانستان میں قدم جمانے کے حوالے سے مقامی میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ دونوں اضلاع میں اکثریت غیر ملکی جنگجوؤں کی ہے جبکہ کچھ مقامی نوجوان بھی تنظیم کا حصہ ہیں۔

مزید پڑھیں: افغان حکومت کی ملا عمر کے انتقال کی تصدیق

خیال رہے کہ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) کی جانب سے حال ہی میں ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں گروپ کے رہنما عثمان غازی اور اس کے دیگر ساتھیوں کو داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی سے بیعت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ افغان رہنما ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق ہونے کے دو ہفتے کے بعد ہی طالبان سے اختلافات کے باعث اسلامک موومنٹ آف ازبکستان نے داعش سے بیعت کرلی تھی۔

رواں ماہ کے آغاز میں آئی ایم یو نے ایک بیان میں ملا عمر کی ہلاکت کی خبر کو چھپانے پر طالبان سے وضاحت بھی طلب کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ملا اختر منصور افغان طالبان کے نئے امیر مقرر

دوسری جانب افغان میڈیا کے مطابق امریکا اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہے۔

یاد رہے کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے دو سال تک طالبان کے بانی رہنما ملا عمر کی ہلاکت کی خبر کو چھپایا گیا تاہم افغان حکومت کا کہنا تھا کہ وہ اپریل 2013ء میں ہلاک ہوئے تھے.

20 سال تک عسکری کارروائیوں کی سربراہی کرنے والے طالبان کے بانی رہنما ملا عمر کی ہلاکت کے اعلان کے بعد ملا اختر منصور کو طالبان کا نیا امیر مقرر کردیا گیا۔

اس خبر سے متعلق مزید تفصیلات: طالبان کے قطر دفتر کے سربراہ مستعفی

تاہم ملا اختر منصور کی امارت کو طالبان کے کچھ دھڑوں نے ماننے سے انکار کردیا تھا، یہ پہلی بار ہے کہ طالبان کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آئے، جس کے باعث گروپ کے تقسیم ہونے کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں