بنگلہ دیش: جماعت اسلامی اور بی این پی رہنماؤں کو پھانسی

اپ ڈیٹ 22 نومبر 2015
پھانسی کے بعد ملک بھر میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں ... فوٹو: اے پی
پھانسی کے بعد ملک بھر میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں ... فوٹو: اے پی

ڈھاکہ : بنگلہ دیش میں 1971 میں آزادی کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے والے مزید دو عوامی رہنماؤں کو پھانسی دے دی گئی۔

جن 2 رہنماؤں کو پھانسی دی گئی ہے ان میں بنگلہ دیش کی سب سے بڑی مذہبی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم ترین رہنماء 67 سالہ علی احسان محمد مجاہد اور حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کے رہنماء 66 سالہ صلاح الدین قادر چوہدری شامل ہیں۔

دارالحکومت میں ڈھاکہ سینٹرل جیل کے سینئر سپرینٹنڈنٹ محمد جہانگیر کبیر کے مطابق دونوں افراد کو رات کے 12:45 پر پھانسی دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں : بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی رہنما عبد القادر ملا کو پھانسی

خیال رہے کہ جماعت اسلامی کے دو رہنماؤں عبدالقادر ملا اور محمد قمر الزمان کو پہلے بھی 1971 کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے اور مختلف جرائم کے الزامات لگا کر پھانسی دی جا چکی ہے جبکہ علی احسان محمد مجاہد تیسرے رہنماء ہیں جن کو پھانسی دی گئی ہے۔

عبدالقادر ملا کو دسمبر 2013 اور محمد قمر الزمان کو 7 ماہ قبل اپریل 2015 میں پھانسی دی گئی تھی جبکہ جولائی 2013 میں جماعت اسلامی کے سابق امیر 90سالہ غلام اعظم کو 90 سال قید کی سزاء سنائی گئی تھی۔

مزید پڑھیں : بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما کو پھانسی

بنگلہ دیش کی حکمران اور سیکیولر نظریات رکھنے والی جماعت عوامی لیگ نے 2010 میں جنگی جرائم کا ٹریبیونل بنایا تھا جس نے 1971 میں پاکستان سے آزادی کی جنگ کے جرائم کے حوالے سے تحقیقات اور سزاؤں کا تعین کرنا تھا مگر اس ٹریبیونل کی کارروائی کو عالمی سطح پر قبول نہیں کیا گیا اور اس کو انتہائی متنازع قرار دیا گیا لیکن بنگلہ دیش کی حکومت نے یہ ٹریبیونل ختم نہیں کیا اور سزاؤں کا سلسلہ تاحال جاری ہے، جبکہ بنگلہ دیش میں عمومی تاثر ہے کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت اس ٹریبیونل کو مخالفین کے خاتمے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ 1971 میں مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تھا البتہ اس دوران مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کا ساتھ جماعت اسلامی نے دیا تھا اور پاکستان کے دفاع کے لیے اپنے کارکن فراہم کیے تھے۔

بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جماعت اسلامی وہاں کی مقبول جماعتوں میں شمار ہوتی ہے جبکہ اس کے جن رہنماؤں کو سزائیں دی گئی ہیں وہ اسمبلی ارکان حتیٰ کہ وزراء بھی رہے ہیں۔

دوسری جانب بی این پی حکمران جماعت عوامی لیگ کی حریف ہے اس لیے اس کے رہنماؤں کو بھی نشانہ بنائے جانے کو سیاسی انتقام قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : جماعت اسلامی رہنما علی احسان محمد مجاہد کوسزائے موت
علی احسان مجاہد کے اہلخانہ ان سے ملاقات کے لیے آ رہے ہیں ... فوٹو: بشکریہ ڈیلی اسٹار
علی احسان مجاہد کے اہلخانہ ان سے ملاقات کے لیے آ رہے ہیں ... فوٹو: بشکریہ ڈیلی اسٹار

علی احسان محمد مجاہد جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیکریٹری جنرل تھے ، وہ 2001 سے 2007 تک جماعت اسلامی کے منتخب رکن پارلیمان رہے تھے جبکہ اسی دوران 5 سال تک وہ عوامی بہبود کے مرکزی وزیر بھی تھے.

ٹریبیونل میں ان کے خلاف بڑے پیمانے پر قتل عام، سازش اور دیگر جرائم کے 5 الزامات عائد کیے گئے البتہ 2 میں ان کو سزاء سنائی گئی جبکہ 3 ثابت نہیں کیے جا سکے۔

ان پر 2013 میں یہ الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں ان کو ٹریبیونل نے پھانسی کی سزاء سنائی جس کے خلاف انہوں نے روں سال 14 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کی البتہ 4 روز قبل 18 نومبر کو ان کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے علی احسان محمد مجاہد کی پھانسی کے خلاف پیر کے روز ملک بھر میں ہڑتال کی کال دی ہے۔

دوسری جانب بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے رہنماء صلاح الدین قادر چوہدری کو 200 افراد کے قتل سمیت 23 مقدمات بنائے گئے جن ان کو پر پھانسی دی گئی ، استغاثہ کا دعویٰ تھا کہ قتل کیے گئے ہندو تھے۔

صلاح الدین قادر چوہدری کے اہلخانہ ان سے ملاقات کے بعد واپس جا رہے ہیں ۔۔۔ فوٹو: بشکریہ ڈیلی اسٹار
صلاح الدین قادر چوہدری کے اہلخانہ ان سے ملاقات کے بعد واپس جا رہے ہیں ۔۔۔ فوٹو: بشکریہ ڈیلی اسٹار

خیال رہے کہ صلاح الدین قادر چوہدری 6 بار بنگلہ دیش کی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

صلاح الدین قادر چوہدری کے والد فضل قادر چوہدری متحدہ پاکستان کے قائم مقام صدر اور قومی اسمبلی کے اسپیکر رہے تھے جبکہ وہ مسلم لیگ کے اہم رہنماء بھی شمار ہوتے تھے جبکہ 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن کی حکومت نے ان کو گرفتار کر لیا تھا ان کا انتقال بھی 1973 میں 55 سال کی عمر میں ڈھاکہ جیل میں ہوا تھا۔

علی احسان محمد مجاہد اور صلاح الدین قادر چوہدری کی پھانسی کے بعد حکومت نے ملک بھر میں سیکیورٹی سخت کر دی ہے جبکہ سیکیورٹی اہلکاروں کی اضافی نفری بھی تعینات کر دی گئی۔

دونوں رہنماؤں کی پھانسی سے قبل اہلخانہ کے 2،2 افراد سے ملاقات کی ااجازت دی گئی تھی ان کے اہلخانہ کے افراد نے رات 9 بجے ان سے ملاقات کی تھی۔

بشکریہ بنگلہ دیشی اخبار ڈیلی اسٹار
بشکریہ بنگلہ دیشی اخبار ڈیلی اسٹار

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

SMH Nov 22, 2015 02:13pm
حکومتی انتقام کی ایک مثال، افسوس کہ ان کے ساتھ کوی کھڑا نا ہوا! کیا اپنے کیا پراے۔
Rafiullah Nov 22, 2015 08:21pm
Barbareiat ke inteha