پہلے دھمکیاں، پھر جپھیاں

30 دسمبر 2015
لکھاری دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان کے عوام اپنے لیڈروں سے یہی چاہتے تھے کہ وہ خوامخواہ میں سرحدی تنازعات بڑھانے کے بجائے توپوں اور بندوقوں کو خاموش کر کے جنگ بندی کی طرف جائیں جو 2003 میں پچھلے وزرائے اعظم نے بڑی محنت سے حاصل کی تھی۔

اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ ہندوستان اور پاکستان دوبارہ کسی بھی سطح پر مذاکرات شروع کریں اور اگر ان مذاکرات سے کچھ نتیجہ حاصل نہ بھی ہو، تب بھی مذاکرات جاری رکھیں۔ آپ اور میں اگر آج زندہ ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایٹمی جنگ کے شدید خطرے کے باوجود کینیڈی اور خروشیف نے بات چیت کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا تھا۔

وزیرِ اعظم مودی اگر خود کو ہرکولیس جیسی صلاحیتوں کا حامل سمجھتے ہیں تو یہ بھی ایک اچھی بات ہے۔ اگر انہوں نے لاہور میں اداکاری کی (جو ان کی عادت ہے) یا ایک سادہ سی اسکرپٹ کو تھوڑا طویل کیا، تو ان کے مخالفین، خاص طور پر کانگریس کو مشتعل نہیں ہونا چاہیے۔

اگر وہ غیر اعلانیہ طور پر منموہن سنگھ بننے کی کوشش کر رہے تھے تو اس میں برا ہی کیا ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ منموہن سنگھ کی خواہش تھی کہ وہ ناشتہ کابل میں، لنچ لاہور میں اور ڈنر دہلی میں کریں۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران منموہن سنگھ وہی کرنا چاہ رہے تھے جو اٹل بہاری واجپائی نے شروع کیا تھا، اور جس کی کڑیاں ایوب خان اور نہرو سے جا ملتی ہیں۔

مودی کے لاہور میں ڈرامائی انداز میں نواز شریف کے گلے لگنے سے ان لوگوں نے سکون کا سانس لیا جو ہندوستان اور پاکستان کی بہتری چاہتے ہیں۔ مودی کی ٹوئیٹس پاکستان کے خلاف اس منفی اسکرپٹ سے ہٹنے کا اشارہ دیتی ہیں جس پر وہ طاقت میں آنے سے لے کر اب تک عمل پیرا تھے۔

جو لوگ تنازعات پر نظر رکھتے ہیں، ان کے نزدیک ملاقاتِ لاہور کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کو احساس ہوگیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ جنگ دونوں ممالک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اندازہ ہے کہ اسی وجہ سے مودی کا پاکستان آنے کا منصوبہ اچانک بنا۔ حال ہی میں ہندوستانی وزیرِ خارجہ سشما سوراج نے تقریباً اسی چیز کو پارلیمنٹ میں تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ آپشن نہیں ہے۔ یہاں تک کہ کانگریس، جو اقتدار سے باہر ہونے پر انتہائی تند مزاج ہو سکتی ہے، سشما سوراج کے اس ایک جملے سے اختلاف نہیں کر سکی۔ سشما کے مطابق صرف مذاکرات ہی حل ہیں۔

مودی کے مؤقف میں تبدیلی کئی مطالعوں اور تحقیقات کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہندوستان کسی بھی دہشتگرد حملے کی صورت میں پاکستان کے خلاف محدود کارروائی کی صلاحیت پر کام کر رہا ہے، مگر اس کو پاکستان پر حاصل عسکری برتری اتنی نہیں جتنی کہ عام طور پر سمجھی جاتی ہے۔

دوسرے الفاظ میں کہیں تو محدود فوجی مہم کے نتائج کیا ہوں گے، یہ نہیں کہا جا سکتا، جبکہ کچھ امکانات ہیں کہ ہندوستان ان سے اپنے مقاصد نہیں حاصل کر سکے گا۔ ایسی محدود فوجی مہمات خطروں سے بھرپور ہوتی ہیں کیونکہ اگر کام محدود طاقت سے نہ بنے، تو فیصلہ کن سیاسی نتائج کے حصول کے لیے جنگ کا دائرہ بڑھ بھی سکتا ہے، اور دنیا خوف کے عالم میں دیکھنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

ہوسکتا ہے کہ سوراج کے اس بیان، کہ پاکستان کے ساتھ جنگ آپشن نہیں ہے، کہ پیچھے یہی پیچیدہ حساب کتاب ہو؟ کیونکہ اگر انہیں اس بات پر دل سے یقین بھی ہوتا، تب بھی یہ کہنا آسان نہیں تھا۔ آخرکار یہی وہ ہیں جنہوں نے لائن آف کنٹرول پر ہلاک ہونے والے ہر ہندوستانی سپاہی کے بدلے 10 پاکستانی گردنیں اڑانے کا اعلان کیا تھا۔ واجپائی کی وہ پسِ پردہ ٹیم جس نے آگرا سربراہی کانفرنس کی ناکامی کا منصوبہ بنایا تھا، سشما ان کا عوامی چہرہ تھیں۔

مگر اس کے باوجود میں نے انہیں ایک نجی دورے کے دوران اسلام آباد-لاہور ہائی وے کے قریب کٹاس راج مندر میں امن کے لیے دعائیں کرتے دیکھا ہے۔ میں نے انہیں لاہور کی ایک چھت پر بینظیر کے جانے کے بعد بسنت کے دوران پتنگ اڑاتے بھی دیکھا ہے۔ سشما سوراج کے نزدیک بھی امن اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے نزدیک۔ اور گذشتہ ہفتے ہونے والی نواز-مودی ملاقات کے شور میں ہمیں یہ بات بھولنی نہیں چاہیے۔

مودی کو اپنا ڈراما کرنے دیں۔ اس دوران ہم ان عوامل کا بھی جائزہ لے سکتے ہیں جس کی وجہ سے اٹل بہاری واجپائی نے ایک عام دن لکھنؤ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ڈرامائی اعلان کیا کہ وہ بذریعہ بس لاہور جائیں گے۔ یہ بھی ایک عارضی مگر حیرت انگیز تبدیلی تھی۔ بظاہر نواز شریف نے دو طرفہ مذاکرات کو تیسرے فریق کی موجودگی میں مذاکرات سے بہتر قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ "بذریعہ بھٹنڈہ امرتسر" کیوں جایا جائے۔ اس لیے واجپائی نے امرتسر سے بس لی اور لاہور پہنچ گئے۔

اور نہیں تو کولمبو میں نواز شریف اور واجپائی کا ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھنچا کھنچا بیٹھنا یاد کریں۔ یہ مئی 1998 کے جیسے کو تیسا والے ایٹمی دھماکوں کے بعد دونوں ممالک کے سربراہان کا ایک دوسرے سے پہلا کشیدہ سامنا تھا۔ ہمیں اب تک نہیں معلوم کہ اگست 1998 میں کولمبو میں ہونے والے اس تعطل اور صرف چھ ماہ بعد ہونے والے اعلانِ لاہور، جسے بے پناہ سراہا گیا تھا، کے بیچ کیا ہوا۔

جن عوامل پر کم ہی بات کی جاتی ہے، وہ مودی اور واجپائی کے درمیان مشترکہ ہیں، جنہوں نے شاید ان کے پاکستان کی طرف رویے کو تبدیل کیا ہو۔ یاد ہے کہ پوکھران ایٹمی دھماکوں کے چھ ماہ کے اندر بھارتیہ جنتا پارٹی چاروں ریاستی انتخابات کانگریس سے ہار گئی تھی؟ سب سے برا تو یہ کہ بی جے پی پوکھران کے بعد دہلی میں کبھی بھی حکومت قائم نہیں کر سکی ہے۔ ان شکستوں نے واجپائی کو ایٹمی ہیرو کے درجے سے گرا دیا اور وہ اپنا تاثر بہتر بنانے کے لیے لاہور پہنچے۔ مودی کا پاکستان کی طرف جھکاؤ بہار کے انتخابات میں ناکامی کے بعد آیا ہے۔

اس کے علاوہ مودی اور واجپائی کے لاہور آنے میں ایک اور زبردست مماثلت ہے۔ واجپائی حکومت کے ہندوتوا حامیوں کی جانب سے اڑیسہ کے جنگلوں میں ایک آسٹریلین عیسائی مشنری کو اس کے بیٹوں سمیت جلائے جانے پر حکومت کو دنیا بھر میں بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔ دادری میں محمد اخلاق کے قتل نے مودی کو بھی وہی بدنامی کا داغ دیا۔ لاہور نے دونوں کو سکون کا سانس دیا۔ آر یا پار کی لڑائی کی دھمکیوں اور جپھیوں کے بیچ میں ایک تلخ حقیقت موجود ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک چاہ کر بھی جنگ کا راستہ نہیں اپنا سکتے۔

لکھاری دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 29 دسمبر 2015 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں