اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر اعتزاز احسن نے پاناما لیکس کے معاملے پر ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) پر حزب اختلاف کے اتفاق کا اعلان کردیا تاہم وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے پر اتفاق نہ ہوسکا۔

اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما حامد خان اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ہم استعفے کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

مزید پڑھیں: الزام ثابت ہوا تو گھر چلاجاؤں گا: نوازشریف



احتساب کا عمل سب سے پہلے وزیراعظم اور ان کے خاندان سے شروع ہونا چاہیے۔

اعتزاز احسن

انہوں نے بتایا کہ کمیشن انکوائری اینڈ ٹرائل ایکٹ کے تحت بنایا جائے گا، املاک اور اثاثوں کی تفصیلات کےلیے تحقیقات کی جائیں۔

پی پی پی رہنما نے کہا کہ احتساب کا عمل سب سے پہلے وزیراعظم اور ان کے خاندان سے شروع ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاناما لیکس پر احتساب کا آغاز وزیراعظم سے'

انہوں نے مزید کہا کہ پاناما لیکس پر انکوائری کو منظر عام پر لایا جائے گا۔

ٹی او آرز

ڈان نیوز کو موصول ہونے والے ٹی او آرز مندرجہ ذیل ہیں۔

• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کو اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو غلط ثابت کرنا ہوگا۔

• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ خود کو تحقیقات کیلئے کمیشن کے سامنے پیش کریں۔

• نواز شریف 1985 سے 2016 تک پراپرٹیز کی تفصیلات فراہم کریں۔

• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کے ذرائع آمدن کیا تھے،کن بینک اکاؤنٹس میں رقم رکھی گئی،کیا اس آمدن پر انکم ٹیکس ادا نہیں کیا جانا تھا؟

• کیا اس آمدن پر انکم ٹیکس ادا نہیں کیا جانا تھا؟

• بیرون ملک خریدی گئی جائیدادوں کیلئے رقم کن بینک اکاؤنٹس، کس تاریخ پر ادا کی گئی؟

• کمیشن کو آف شور اکاؤنٹس میں بھیجی گئی رقم کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔

• کیا وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ دسمبر 2000 کے بعداسٹیٹ گیسٹ تھے؟

• خصوصی کمیشن عالمی فرانزک آڈٹ کیلئے ماہرین کی کمیٹی بھی مقرر کرسکےگا۔

• ماہرین کی کمیٹی آف شور کمپنیوں کیلئے رقم کی مکمل چھان بین کرےگی۔

• نیب اور ایف آئی اے سمیت تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔

خیال رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے 22 اپریل کو قوم سے خطاب میں اعلان کیا تھا کہ ان کے اہل خانہ پر پاناما پیپز میں لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا گیا ہے۔

مذکورہ اعلان کے فوری بعد حکومت نے سیچوٹری ریگولیٹری آرڈر (ایس آر او) جاری کیا تھا جس میں پاکستان کمیشن آف انکوئری ایکٹ 1965 کے سیکشن 3 ون کے تحت کمیشن کیلئے 3 افراد کا نام دیا تھا۔

تاہم اپوزیشن نے حکومتی ٹی او آرز کو مسترد کردیا تھا۔

حکومتی ٹی او آر کے چند نکات درج ذیل ہیں:

• کمیشن پاکستانی شہریوں، پاکستانی نژاد غیرملکیوں اور اداروں سے پاناما یا کسی اور ملک میں آف شور کمپنیوں سے متعلق تحقیقات کرسکے گا۔

• کمیشن کو موجودہ یا پھر سابقہ عوامی عہدوں کے حامل افراد سے بھی تحقیقات کا اختیار ہوگا جنہوں نے سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے یا اہل خانہ کے قرضے معاف کرائے یا پھر کرپشن، کمیشن یا کک بیکس کے ذریعے کمائی گئی رقم ملک سے باہر بھجوائی۔

• انکوائری کمیشن اس بات کا تعین کرےگا کہ کیا پاناما لیکس کے الزامات کے مطابق کسی پاکستانی قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔

مکمل حکومتی ٹی او آرز یہاں پڑھیں۔

پاناما لیکس

واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہو گئے۔

آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟


• کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

• کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔

مزید جانیں: پاناما لیکس: نیب سے تحقیقات کا مطالبہ

ان دستاویزات میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

پاناما پیپرز کی جانب سے International Consortium of Investigative Journalists کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad khan May 04, 2016 12:59am
پاناما لیکس پر اپوزیشن والے متفق نہیں ھوسکے جو حکومت کیلئے اچھی خبر ھے اپوزیشن والوں نے جو قوائد پیش کئے ھیں ان کو حکومت تسلیم کریگی یا نہیں یہ طے ھونا ابھی باقی ھے حکومت کے قوائد وسیع ھیں اور اپوزیشن والے صرف پاناما پیپر تک محدود رہنا چاہتی ھے جس سے معلوم ھوتا ھے کہ اپوزیشن والے تمام لوگوں کے حلاف تحقیقات کے حق میں نہیں جس سے عوام مطمئن نہیں ھوسکتے اسکے علاوہ موجودہ اپوزیشن اس سلسلے میں قانون سازی بھی کرنا چاہتی ھے مگر دوسری طرف تین مہینے میں تحقیقات مکمل کرنے کا مطالبہ بھی کرتی ھے ایسا لگتا ھے کہ اپوزیشن والے اپس میں تقسیم ھیں دوسری طرف اپوزیشن والوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ اگے کیا کرینگے حکومت کے حلاف کاروائی مشترکہ ھوگی یا نہیں