افغان طالبان رہنما ملا منصور کی ہلاکت سے متعلق خبریں ان دنوں میڈیا پر گردش کررہی ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا میں بھی اس حوالے سے مختلف قسم کی آراء سامنے آرہی ہیں جہاں کچھ اداروں نے اسے ایران اور امریکا کے درمیان 'خفیہ' ڈیل قرار دیا جبکہ کچھ نے افغان رہنما کی ہلاکت کے بعد امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کی پیشگوئی کردی۔

العربیہ

العربیہ کی ایک رپورٹ میں ہلاکت کے بعد کئی سوالات اٹھائے گئے جن میں سب سے اہم سوال یہ کیا گیا کہ ایران نے امریکا کے ساتھ کسی خفیہ ڈیل کے تحت ملا منصور کے قتل میں امریکیوں کی مدد کی ہے؟

مزید پڑھیں: ملا منصور رکاوٹ تھے تو مری مذاکرات کیسے ہوتے، نثار

رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستانی حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ملا منصور کو ایران سے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد نشانہ بنایا گیا مگر ایرانی وزارت خارجہ نے پاکستان کے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے کہ ملا منصور کی ہلاکت میں اس کا کوئی ہاتھ ہے یا یہ کہ مقتول رہ نما امریکی حملے سے قبل ایران میں تھے۔ تاہم ایران نے افغانستان کی اس پر تشدد تحریک کے ساتھ اپنے روابط کی تردید نہیں کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ایرانی وزارت خارجہ نے طالبان کے سربراہ کےدورہ ایران کی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے تاہم تہران کی جانب سے پاکستان کی طرف سے مقتول کے پاسپورٹ اور اس پر ایک جعلی نام کی موجودگی کے بارے میں آنے والی اطلاعات کی تردید نہیں کی۔

الجزیرہ

ادھر الجزیرہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہاکہ طالبان اور ایران بظاہر مختلف ایجنڈا پر کام کررہےہیں تاہم افغان تنازع کے سیاق و سباق میں مفادات کے پیش نظر معاملات تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگتی۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں ڈرون حملہ ’ریڈ لائن‘ کی خلاف ورزی

رپورٹ میں کہا گیا کہ بظاہر مارچ میں ملا منصور ایران چلے گئے اور وہاں حکومتی نمائندوں سے ملاقاتیں بھی کیں جن کا مقصد داعش سے لاحق خطرات کے خلاف اتحاد کے معاملات پرتبادلہ خیال کیاگیا۔

رپورٹ ذرائع کے حوالے سے کہاگیا کہ ملا منصور نے غالباً ایران کے شہر زابل میں میں زیادہ تر وقت گزارا ہوگا جہاں 2001 کے امریکی حملے کے بعد سے متعدد طالبان رہنما رہائش پذیر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کی بھی ڈرون حملے پر شدید تشویش

تاہم رپورٹ میں طالبان رہنما کی ہلاکت کےبعد امن مذاکرات نہ ہونے اور افغانستان میں مزید خون ریزی کے خدشے کا بھی اظہار کیا گیا۔

وال اسٹریٹ جرنل

ادھر وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ جب ملا منصور ایران میں موجود اپنے اہلخانہ سے ملنے گئے اس وقت امریکی خفیہ اداروں کو ان کے ٹھکانے کا علم ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ چونکہ امریکی ڈرون پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقوں میں سرگرم نہیں، اس سلسلے میں دیگر انٹیلی جنس ذرائع کا سہارا لیا گیا اور جیسے ہی ان کی کار ایران سے بلوچستان میں داخل ہوئی، ان کو نشانے پر لے لیا گیا۔

مزید جانیں: ہیبت اللہ اخونزادہ افغان طالبان کے نئے امیر مقرر

رپورٹ میں کہا گیا کہ ملا منصور پر ڈرون حملے سے پاکستان کو پیغام دیا گیا ہے کہ اگر ضرورت پیش آئی تو بغیر کسی اطلاع کے امریکا پاکستانی سرزمین پر کارروائی کرسکتا ہے۔

نیو یارک ٹائمز

نیو یارک ٹائمز نے اپنے ایک اداریئے میں کہا کہ ایران طالبان کی گزشتہ کئی سالوں سے خاموشی کے ساتھ حمایت جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ اگر طالبان کبھی کابل پر دوبارہ قابض ہوجائیں تو ان سے بات چیت کی جاسکے۔

اداریئے میں کہا گیا کہا اگر پاکستان طالبان کے خلاف امریکی حکومت کے ساتھ تعاون کرتا تو امریکا کو اس کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

اداریئے میں واقعےکے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید خراب ہونے کا عندیہ بھی دیا گیا اور کہا گیا کہ ملا منصور کی ہلاکت سے یہ ضروری نہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہوجائے یا طالبان امن مذاکرات کے لیے تیارہوجائیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں