واشنگٹن: امریکا کیلئے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام کو اپنی ناکام پالیسیز اور ان کو بیرون ملک خراب طریقے سے پیش کرنے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے نہ کہ اس پر سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کیلئے ملک میں بیٹھ کر کسی اور کو قربانی کا بکرا بنانا چاہیے۔

حسین حقانی نے اپنے بیان میں وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کی جانب سے قومی اسمبلی میں بلاواسطہ طور پر ان پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ سرتاج عزیز ان کے حوالے سے بات کررہے تھے کیونکہ اس سے قبل بھی ایک وزیر ایسا ہی دعویٰ کرچکے ہیں۔

یاد رہے کہ سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی اجلاس میں خطاب کے دوران کسی کانام لیے بغیر کہا تھا کہ امریکا کے لیے پاکستان کے سابق سفیر اپنے ہی ملک کے خلاف لابنگ کرنے میں مصروف ہیں، جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔

حسین حقانی کا کہنا تھا کہ 'میں امریکا میں ایک اسکالر ہوں لابنگ کرنے والا نہیں، اگر میری رائے اتنا وزن رکھتی ہے کہ امریکی پالیسیوں پر اثر انداز ہوسکیں تو پاکستان کی وزارت خارجہ کو میری رائے پر عمل کرنا چاہیے نہ کہ میرے ساتھ ایک اچھوت کی طرح برتاؤ کیا جائے اور پاکستانی میڈیا میں مجھ پر جھوٹے الزامات لگائے جائیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں پاکستان کیلئے درپیش مسائل اس کی جانب سے برسوں تک عسکریت پسندوں کو مدد فراہم کرنے اور اس پر معذرت پیش کرنے کی وجہ سے ہیں جس کا امریکا پر انتہائی کم اثر ہوتا ہے، اس کے علاوہ پاکستان امریکی امداد پر انحصار کرتا ہے جس نے امریکی قومی مزاج اور رویے میں اس حوالے سے احساس کی تبدیلی پیدا کردی ہے۔

مزید پڑھیں: 'سابق پاکستانی سفیر ملک کےخلاف لابنگ میں مصروف'

انھوں نے کہا کہ 'میں نے عبدالقدیر خان نیٹ ورک نہیں بنایا تھا، نہ ہی طالبان کی حمایت کی تھی جو امریکی فوجیوں کو قتل کررہے ہیں یا اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیموں کو کھل کر کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے، اس لیے اپنی پالیسیوں کی ناکامی کا الزام مجھ پر عائد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، اور نہ ہی میں اور کوئی دوسرا سابق سفیر ہی اسامہ بن لادن کے واقعے کا ذمہ دار ہے'۔

حسین حقانی کا کہنا تھا کہ 'میں نے پاکستانی بین الاقوامی پالسیز کی وجہ سے اس کے مفاد کے متاثر ہونے پر تین کتابیں لکھی ہیں، سرتاج عزیز سمیت دیگر کو اپنے دلائل جھٹلانے کیلئے کتابیں لکھنے کیلئے خوش آمدید کہتا ہوں، لیکن یہ کہنا کہ میری رائے سے آپ کی خارجہ پالیسز میں مشکلات پیش آرہی ہیں تو یہ بہترین دوغلا پن ہے'۔

سابق پاکستانی سفیر نے کہا کہ وہ کسی بھی لابی کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی وہ 'پاکستان کے مفاد کے خلاف' کوئی لابنگ کریں گے، انھوں نے زور دیا کہ تاہم، ان کی پاکستانی مفادات کے حوالے سے رائے مختلف ہے، جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر لوگوں کیلئے مشکلات کا باعث ہے، تو ہاں ایسا ہے۔

حسین حقانی نے سرتاج عزیز کو مشورہ دیا کہ واشنگٹن میں موجود اسکالر کے خلاف اسلام آباد میں شور مچانے سے واشنگٹن میں کچھ نہیں ہونے والا۔

انھوں نے مزید کہا کہ 'میں سرتاج عزیز کا بحیثیت ماہر اقتصادیات بہت زیادہ احترام کرتا ہوں اور ان سے بھی اپنے لیے بحیثیت بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر کے طور پر ویسا ہی احترام چاہتا ہوں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں