واشنگٹن: پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی رچرڈ اولسن نے پاکستان پر دہشت گردوں کے خلاف جنگ پر توجہ مرکوز رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں ہندوستان کے کردار کے حوالے سے پاکستانی تحفظات 'ضرورت سے زائد' ہیں۔

واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک 'دی ایٹلانٹک کونسل' سے خطاب کرتے ہوئے رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ 2018 سے 2020 کے دوران امریکا افغان نیشنل سیکیورٹی فورس کی امداد کے لیے مزید 3 بلین ڈالر فراہم کرے گا۔

پاکستان کے ان تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہ ہندوستان، بلوچستان میں بدامنی اور شورش پھیلانے کے لیے افغانستان میں اپنی موجودگی کا استعمال کررہا ہے، رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ' ہندوستان، افغانستان کا ایک مددگار شراکت دار ہے اور اگرچہ اس کی جانب سے امداد کم ہے لیکن افغانستان کے لیے ہندوستان نے اہم فوجی معاونت فراہم کی ہے۔'

رچرڈ اولسن، جو موجودہ عہدے سے قبل پاکستان میں امریکی سفیر کے طور پر تعینات تھے، سے اس حوالے سے بھی سوال کیا گیا کہ پاکستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ہندوستان نے افغانستان میں 24 قونصل خانے کھول رکھے ہیں جن میں سے کچھ پاکستانی سرحد کے قریب ہیں۔

جس پر رچرڈ اولسن نے اس تاثر کو مسترد کردیا اور وضاحت پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 'افغانستان میں صرف 4 ہندوستانی قونصل خانے' ہیں ۔

مزید پڑھیں:'پاکستان، افغانستان اور ہندوستان کے تعلقات نہیں چاہتا'

ان کہنا تھا 'مجھے کبھی کبھار محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان میں ہندوستانی مداخلت کی شرح کو پاکستان میں بڑھا چڑھا کر بتایا جاتا ہے'۔

رچرڈ اولسن نے پاکستانی فیصلہ سازوں کو ان کی اپنی سلامتی کے خطرات یاد دلاتے ہوئے کہا کہ انھیں اس پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کبھی بھی محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک وہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائیاں نہیں کرتا'۔

تاہم انھوں نے کہا کہ وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن نے پاکستان میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے، جس کے نتیجے میں پرتشدد واقعات میں کمی اور پاکستانی کی معیشت مسحکم ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: ’افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہلاک‘

رچرڈ اولسن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے اُن دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں ہچکچاہٹ، جو اس کی سرزمین سے باہر بیٹھ کر حملے کرتے ہیں، اس کی اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں کامیابیوں پر اثرانداز ہوئی ہے۔

ساتھ ہی انھوں نے خبردار کیا کہ، 'پاکستان کا مستقبل اُس وقت تک روشن نہیں ہوسکتا جب تک وہ طالبان کے خلاف کارروائی نہ کرے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان طالبان نے نئے امیر کی قیادت میں خود کو منظم کرلیا ہے، جنھوں نے گذشتہ ماہ بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے میں سابق طالبان امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد قیادت سنبھالی۔

یہ بھی پڑھیں: ملا منصور رکاوٹ تھے تو مری مذاکرات کیسے ہوتے، نثار

دوسری جانب رچرڈ اولسن نے افغان امن عمل کے سلسلے میں پاکستانی کوششوں کو بھی سراہا اور اسلام آباد پر زور دیا کہ وہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے طالبان پر امن مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے زور ڈالے۔

واضح رہے کہ ملااختر منصور کی ہلاکت کے بعد امریکا نے انھیں امن عمل میں رکاوٹ قرار دیا تھا، جن کے بعد ایک سخت گیر مذہبی رہنما مولوی ہیبت اللہ اخوانزادہ کو طالبان کا نیا امیر مقرر کیا گیا۔

یہ خبر 22 جون 2016 کے ڈان اخبار مں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں