واشنگٹن : امریکا کے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے صدارتی نامزدگی کی ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن سے ای میل اسکینڈل کے حوالے سے پوچھ گچھ کی ہے۔

امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ ایف بی آئی کی جانب سے ہیلری کلنٹن سے تفتیش اس بات کا اشارہ ہوسکتا ہے کہ محکمہ انصاف میں سابق وزیر خارجہ کے خلاف ایک سال سے زائد عرصے سے جاری تحقیقات اب مکمل ہونے والی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ہیلری کلنٹن کو درکار ارکان کی حمایت حاصل

ہیلری کلنٹن نے ایف بی آئی کی تفتیش کے حوالے سے امریکی ٹی وی این بی سی کے پروگرام 'میٹ دا پریس' میں بتایا کہ وہ اس حوالے سے تحقیقات میں تعاون کیلئے ہمیشہ تیار رہی ہیں اور انہیں خوشی ہوگی کہ وہ محکمے کی جائزہ رپورٹ کو مکمل کرنے میں معاونت کریں۔

ہیلری کلنٹن نے کہا کہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ رپورٹ کب مکمل ہوگی اور ان پر کیا الزامات عائد کیے جائیں گے۔

مزید پڑھیں:بلاول کو ایکشن میں دیکھ کر ہیلری کلنٹن خوش

ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ ہیلری نے واشنگٹن میں ایف بی آئی کے ہیڈکوارٹرز میں ساڑھے تین گھنٹے تک سوالات کے جواب دیے۔

اس حوالے سے ایف بی آئی اور محکمہ انصاف کے ترجمان نے تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے، ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آیا اس معاملے میں ہیلری کلنٹن یا کسی اور کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا نہیں۔

مزید پڑھیں:مسلم مخالف بیان: ٹرمپ کی مشکلات میں اضافہ

اگر ہیلری کلنٹن اور ان کے ساتھیوں کو اس اسکینڈل سے کلین چٹ مل جاتی ہے تو یہ کلنٹن کی انتخابی مہم کیلئے انتہائی مفید ثابت ہوگا کیوں کہ کئی ووٹرز نے ہیلری پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔

ہیلری کلنٹن کے حریف اور ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ بھی ہیلری کو ای میل اسکینڈل کی وجہ سے عہدہ صدارت کیلئے نا اہل قرار دیتے رہے ہیں۔

ایف بی آئی کی ہیلری سے پوچھ گچھ کی رپورٹس سامنے آتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ ایف بی آئی کیلئے یہ ناممکن ہے کہ وہ ہیلری کے خلاف مقدمہ چلانے کی سفارش نہ کرے کیوں کہ ہیلری نہ جو کیا وہ غلط تھا۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ رپبلکن پارٹی کے یقینی امیدوار

ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی لکھا کہ 'مجھے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایف بی آئی ہیلری پر کوئی الزام عائد نہیں کرے گی، جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ پورا سسٹم ہی بدعنوان ہے'۔

یاد رہے کہ جب ہیلری کلنٹن صدر اوباما کے دور میں وزیر خارجہ تھیں تو انہوں نے انتہائی حساس تصور کی جانے والی معلومات کا تبادلہ محکمہ خارجہ کے فراہم کردہ سرور کے بجائے اپنے ذاتی ای میل سرور کے ذریعے کیا تھا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں