ٹھیک نو بجے ناظم اکبر، ڈپٹی ڈائریکٹر، گریڈ 19، ہڑبڑا کر جاگتے ہیں۔ ان کا حلق خشک ہے اور زبان میں کانٹے پڑے ہیں۔ سر میں دھما دھم ہو رہی ہے اور پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ انہیں پہلا خیال یہ آتا ہے کہ رات کسی حرام زادے نے جعلی شراب پلا دی۔ لیکن فوری طور پر اس حرام زادے کا تعین نہیں کر پاتے کیونکہ رات وہ ایک سے زیادہ پارٹیوں پر مدعو تھے لیکن میزبان کون تھے اس وقت یاد نہیں آ رہا۔

ساڑھے گیارہ بجے وہ کالے چشمے کے پیچھے سرخ انگارہ آنکھیں چھپائے اپنے دفتر میں داخل ہوتے ہیں تو پی اے فکر مند ہو کر فوراً بلیک کافی اور سر درد کی دو گولیاں منگواتا ہے اور مشورہ دیتا ہے کہ صاب کچھ دیر آرام کر لیں، صبح آٹھ بجے سے انتظار میں بیٹھے سائلین کو کوئی جلدی نہیں ہے۔ صاب کو یہ مشورہ پسند آتا ہے۔ اپنے کمرے کی جانب قدم بڑھا کر وہ رک جاتے ہیں اور پی اے سے پوچھتے ہیں کوئی فون تو نہیں آیا۔ ’جی سر بڑے صاب نے کال کی تھی۔ میں نے بتا دیا کہ آپ راؤنڈ پر ہیں اور ایک ایک ڈیسک پر جا کر دیکھ رہے ہیں کہ سب لوگ وقت کی پابندی اور دل لگا کر کام کر رہے ہیں یا نہیں’۔ ہوں، ٹھیک ہے، شاباش۔ اب  ایک گھنٹے تک مجھے کوئی کال نہیں دینی، بیگم کی بھی نہیں ، ، ، بیگم کی تو بالکل بھی نہیں۔

ایک بجے ناظم اکبر پی اے کو فون کرتے ہیں: لنچ میں کیا ہے؟ ’سر وہ ٹھیکیدار تین روز سے یہیں بیٹھا ہے۔ کہتا ہے جب تک آپ اس کے ساتھ کھانا نہیں کھائیں گے وہ یہاں سے نہیں ہٹے گا، پھر وہ ہوٹل کے مالک ہیں جو اپنے نئے ریستوراں کا افتتاح تبھی کریں گے جب آپ کو فرصت ہو گی، اور - - - وہ میم صاب جن سے آپ کی فون پر بات ہوتی ہے وہ بھی کہہ رہی تھیں کہ وہ آج لنچ آپ کے ساتھ کرنا چاہتی ہیں۔

’ ہوں، اچھا، تو یہ کرو ٹھیکیدار سے کہہ دو میں لنچ اس کے ساتھ کروں گا لیکن کسی اچھی جگہ، میم صاب کو پیغام دو کہ دوپہر میں بہت سی میٹنگز ہیں، شام کو ڈنر پر ملیں گے۔ اور ہوٹل والے سے کہہ دو رات میرے لیے ٹیبل فار ٹو اور ایک وی آئی پی کمرہ بھی بک کر دے۔ اور خبردار مجھے وہاں کوئی میڈیا کا مسخرہ نہیں چاہییے'۔

تین بجے صاب میز پر رکھے فائلوں کے ڈھیر کو ناپسندیدگی سے دیکھتے ہیں اور پی اے کو حکم دیتے ہیں کہ پہلے سائل کو حاضر کیا جائے۔ ایک بوڑھا آدمی جو اسی دفتر سے ریٹائر ہوا ہے، اپنی پینشن کے سلسلے میں حاضر ہوتا ہے۔ ’ہاں اصغر سب ٹھیک ہے نا، کیسے آنا ہوا؟

صاب بیمار تھا، تین مہینے بستر سے لگا رہا۔ ابھی چلنے پھرنے کی کچھ ہمت آئی ہے تو سرکاری ہسپتال سے سرٹیفکیٹ لے کر آیا ہوں تا کہ تین مہینے کی پینشن جاری ہو سکے۔

بیماری کا سرٹیفکیٹ ہے؟ صاب نے سرسری نظر ڈاکٹری کاغذ پر ڈالی۔

نئیں صاب، ڈاکٹر صاب ہر مہینے تصدیق کرتے ہیں کہ میں زندہ ہوں، اس کے بعد ہی اس مہینے کی پینشن ملتی ہے۔

اچھا اچھا، یہ تو بہت اچھی بات ہے - - - لیکن یہ سرٹیفکیٹ تو صرف اس مہینے کا ہے، پچھلے دو مہینوں کا سرٹیفکیٹ کدھر ہے؟

جی وہ تو، میرا مطلب ہے کہ میں آپ کے سامنے، یعنی

دیکھو اصغر تم نے یہاں بہت لمبی نوکری کی ہے۔ تمہیں ریٹائر ہوئے بھی بیس سال ہونے والے ہیں۔ تمہیں اندازہ ہے کہ تمہاری اس لمبی زندگی سے سرکاری خزانے پر کتنا بوجھ پڑ رہا ہے؟ لیکن میں پھر بھی تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں، آخر تم نے اتنی خدمت کی ہے میری۔ لیکن قانون قاعدہ اپنی جگہ پر۔ کل باقی کاغذات بھی لے کر آ جانا میں پینشن جاری کروا دوں گا۔

پی اے صاحب بہت تھک گیا کام کر کے، باقی فائلیں اٹھا لیں اور اچھی سی چائے پلائیں، اور کوئی ریاض صاحب بیٹھے ہیں انہیں اندر بھیج دیں۔

ریاض صاحب مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے: سر رات کی پارٹی کا مزہ آیا؟ بس ایک بار آپ ہمارے پراجیکٹ کو او کے کر دیں پھر روز ایسی پارٹیاں ہوں گی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کو یاد آ گیا کہ رات یہی منحوس میزبان تھا جس نے گھٹیا وہسکی پلائی تھی۔ ’ریاض صاحب آپ کے پراجیکٹ میں مجھے کوالٹی دکھائی نہیں دی، بہت دو نمبر میٹیریل استعمال کر رہے ہیں آپ۔ میں کیسے او کے کر دوں اسے، آخر میں نے بھی کسی کو جواب دینا ہوتا ہے'۔

سائل گھبرا گیا: ایسا نہ کہیں سر ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معاف فرمائیں۔ ایسا کرتے ہیں کل فارم ہاؤس پر پارٹی رکھتے ہیں، میرا کزن دبئی سے سنگل مالٹ وہسکی لے کر آیا ہے، اور دو روسی بیلی ڈانسر بھی۔ بہت خوبصورت ہیں اور ڈانس بھی کر لیتی ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں اس پارٹی کے بعد آپ کو کوالٹی کی شکایت نہیں ہو گی۔

سات بجے ناظم صاحب دوستوں کی محفل لگا کر بیٹھے ہیں جب پی اے بتاتا ہے کہ بڑے صاحب کا فون آیا ہے۔ ’بڑے صاحب سے کہو ناظم صاحب نماز پڑھ رہے ہیں، فارغ ہو کر کال بیک کرتے ہیں'۔

پانچ منٹ کے بعد وہ بڑے صاحب سے مخاطب ہیں: سر آپ نے یاد کیا تھا - - - بس سر کام اتنا زیادہ ہے کہ ہر روز مغرب کی نماز بھی دفتر میں ہی ادا کرنی پڑتی ہے - - - نہیں سر یہ تو آپ کا حسن ظن ہے ورنہ میں کس قابل، بس کچھ مصیبت کے ماروں کے مسائل حل ہو جاتے ہیں جس سے شاید میرے گناہوں کی سزا میں کچھ کمی ہو جائے۔ فرمائیے سر میں کیا خدمت کر سکتا ہوں؟


تبصرے (2) بند ہیں

وقار حیدر Jul 20, 2012 05:48am
کیا خوب صورت تحریر ہے! جناب کمال کر دیا. بہت خوب.....
قاری Jul 20, 2012 11:57am
آج سے کچھ سال پھلے تک بالکل ایسا ھی تھا لیکن اب بھت مختلف حالات ھیں. سب کچھ تو نھیں بدلا لیکن بھت کچھ بدل گیا ھے. اس لیے اس تحریر میں کافی مبالغھ آرای لگتی ھے.اگر تحریر کالم نویس کے کالج کے زمانے کی ھے تو ٹھیک ھے ورنھ نھیں