استنبول: ترکی میں تعینات امریکی سفیر نے ایک بار پھر، گزشتہ ماہ ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش میں امریکا کے ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ نے ترکی کے انگریزی اخبار ’حریت ڈیلی نیوز‘ میں امریکی سفیر جون باس کے شائع ہونے والے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میں بس یہ کہنا چاہتا ہوں، جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور واشنگٹن سے بھی یہ بیان سامنے آچکا ہے کہ امریکا نے 15 جولائی کی رات ترکی میں پیش آنے والے واقعات کی منصوبہ بندی یا حمایت نہیں کی اور نہ ہی اسے ان غیر آئینی سرگرمیوں کی پیشگی اطلاع تھی، اس لیے اب یہ باب بند ہونا چاہیے۔‘

یہ بھی پڑھیں: ترک صدر کا امریکی جرنیل پر ’باغیوں کی پشت پناہی‘ کا الزام

ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے ملک پر اس حوالے سے لگنے والے الزامات پر گہرا دکھ اور افسوس ہے۔

واضح رہے کہ ترک صدر رجب طیب اردگان اور ان کی حکومت نے فوج کے ایک گروپ کی جانب سے بغاوت کی ناکام کوشش کا الزام امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن پر عائد کرتے ہوئے امریکا سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا۔

ان الزامات کے بعد ترکی کے امریکا اور بغاوت کی سازش میں ملوث ہونے کے شبے میں سیکڑوں فوجیوں، ججوں اور دیگر افراد کی گرفتاری کے بعد یورپی یونین سے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: فوجی بغاوت: امریکا اور ترکی کے تعلقات کشیدہ ہونے کا خدشہ؟

رجب طیب اردگان نے مغرب پر بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی مدد کا الزام عائد کیا تھا اور امریکا کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے فتح اللہ گولن کو حوالے نہیں کیا تو دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔

فوجی بغاوت کی کوشش کے بعد ترکی کے وزیر محنت سلیمان سولو نے تو امریکا پر یہ تک الزام لگایا تھا کہ وہی اس کوشش کے پیچھے ہے، جبکہ ترک آرمی کے سابق چیف ِالکر باسبُگ نے دعویٰ کیا کہ امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کا بھی اس سازش کے پیچھے ہاتھ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں