آوارہ، زخمی جانوروں کے تحفظ کیلئے 'ایدھی اینیمل ہوم'

اپ ڈیٹ 22 ستمبر 2016

کراچی کی سپر ہائی وے پر ایک ایسا ہسپتال نما گھر بھی ہے، جس میں انسانوں کا نہیں بلکہ جانوروں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کا خیال بھی رکھا جاتا ہے۔

اس 'گھر' میں تیز رفتار گاڑیوں کی زد میں آکر زخمی ہونے والی کئی بلیاں دیکھی جاسکتی ہیں، ایسے گدھے بھی موجود ہیں جو اب بار برداری کے لائق نہیں رہے جبکہ لاتعداد ایسے زخمی پالتو کتے بھی ہیں جن کی ملکیت کا اب کوئی دعویدار نہیں ہے۔

سپر ہائی وے پر جانوروں کی دیکھ بھال کیلئے بنائے جانے والی مذکورہ 'سہولت' ایدھی فاؤنڈیشن کی جانب سے قائم کی گئی ہے اور اس کو ایدھی اینیمل ہوم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

کراچی میں ایک اندازے کے مطابق 35ہزار آوارہ کتے ہیں جبکہ سالانہ 15 ہزار افراد ان کتوں کے کاٹنے سے متاثر ہوتے ہیں۔

کراچی میں حالیہ دنوں میں آوارہ کتوں کو زہر دے کر بڑے پیمانے پر مارا گیا، شہر کی میونسپل کارپوریشن آوارہ یا جنگلی کتوں کو 19ویں صدی کے قانون کے تحت مارنے کی سرگرمیاں ہر کچھ ماہ بعد انجام دیتی ہے۔

دوسری جانب جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن اس عمل کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں، ان کی جانب سے تجویز دی جاتی ہے کہ ان آوارہ کتوں یا جانوروں کے لیے شہر سے باہر کوئی مخصوص مقام ہونا چاہیے جہاں ان کے لیے خوراک کا بھی بندوبست کیا جائے جبکہ مذکورہ خیال کی تکمیل کیلئے ایدھی فاؤنڈیشن نے اپنی خدمات پیش کردی ہیں۔

اس حوالے سے ایدھی اینیمل ہوم کے ماہر حوانیات ڈاکٹر خالد محمود کا کہنا تھا کہ آوارہ جانوروں کی نسل تلف کر دینا مسئلے کا حل نہیں ہے، بلکہ ان جانوروں کی نسل بڑھانے کی صلاحیت کو ختم کر دینا چاہیے یعنی انھیں 'خصی' کردیں تو ان کی نسل میں تیزی سے اضافہ ممکن نہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ سال تک ایدھی فاؤنڈیشن کو لوگ صرف ایک ایمبولنس سروس کے طور پر ہی جانتے تھے جو ملک میں کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے اپنی خدمات انجام دیتے تھے۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے ہمراہ مذکورہ پروگرام میں مدد فراہم کرنے والے ڈاکٹر گھی والا اینیمل کیئر سینٹر میں آئے روز 6 سے 12 متاثرہ جانوروں کو علاج کیلئے لایا جاتا ہے، متاثرہ جانوروں کو طبی امداد دینے کے بعد ایدھی اینیمل ہوم منتقل کردیا جاتا ہے۔

مذکورہ ادارے کی انتطامیہ کا کہنا تھا کہ ان جانوروں کو گود لینے تقریبا کوئی نہیں آتا اور اگر کوئی ان کو گود لے بھی لے تو ان جانوروں کی پہلی بیماری اور مسائل کی وجہ سے ان کو ترک کردیا جاتا ہے۔

ایدھی اینیمل ہوم میں موجود بلی کے متاثرہ بچوں کا خیال رکھا جارہا ہے — فوٹو: اے ایف پی
ایدھی اینیمل ہوم میں موجود بلی کے متاثرہ بچوں کا خیال رکھا جارہا ہے — فوٹو: اے ایف پی
ایک زخمی کتے کا علاج جاری ہے — فوٹو: اے ایف پی
ایک زخمی کتے کا علاج جاری ہے — فوٹو: اے ایف پی
ایک متاثرہ کتے کو علاج سے قبل منہ پر حفاطتی ماسک پہنایا جارہا ہے — فوٹو: اے ایف پی
ایک متاثرہ کتے کو علاج سے قبل منہ پر حفاطتی ماسک پہنایا جارہا ہے — فوٹو: اے ایف پی
ایدھی اینیمل ہوم میں ایک بلی کا علاج کیا جارہاہے— فوٹو: اے ایف پی
ایدھی اینیمل ہوم میں ایک بلی کا علاج کیا جارہاہے— فوٹو: اے ایف پی
ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار ایک زخمی کتے کو علاج کیلئے لے جارہے ہیں —فوٹو: اے ایف پی
ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار ایک زخمی کتے کو علاج کیلئے لے جارہے ہیں —فوٹو: اے ایف پی
ماہر حوانیات ڈاکٹر خالد محمود کے مطابق آوارہ جانوروں کی نسل تلف کرنے بجائے ان جانوروں کی نسل بڑھانے کی صلاحیت کو ختم کر دینا چاہیے — فوٹو: اے ایف پی
ماہر حوانیات ڈاکٹر خالد محمود کے مطابق آوارہ جانوروں کی نسل تلف کرنے بجائے ان جانوروں کی نسل بڑھانے کی صلاحیت کو ختم کر دینا چاہیے — فوٹو: اے ایف پی
ایدھی اینیمل ہوم میں علاج کے بعد متاثرہ جانوروں کا خیال بھی رکھا جاتا ہے — فوٹو: اے ایف پی
ایدھی اینیمل ہوم میں علاج کے بعد متاثرہ جانوروں کا خیال بھی رکھا جاتا ہے — فوٹو: اے ایف پی