وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے دو افراد کو گرفتار کیا ہے جوامجد صابری کے قتل سمیت دیگر ہائی پروفائل کیسز میں ملوث ہیں۔

کراچی پولیس کے اعلیٰ حکام کے ہمراہ پریس کانفرس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ 'ایس ایس پی راجاعمرخطاب کی سربراہی میں سی ٹی ڈی نے کراچی کے علاقے لیاقت آباد سے دو ملزمان اسحاق عرف بوبی اور عاصم عرف کیپری کو گرفتار کر کے ان سے اسلحہ برآمد کیا ہے جبکہ باقاعدہ تفتیش کے بعد ان ملزمان کے 28 واقعات میں ملوث ہونے کے ثبوت ملے'۔


مراد علی شاہ نے کہا کہ دونوں ملزمان کے حوالے سے 'واضح ثبوت' ہیں کہ یہ 9 بڑے واقعات میں ملوث ہیں۔

  • 29 اکتوبر کو ناظم آباد مجلس پر حملہ
  • 17 اکتوبر کو لیاقت آباد میں مجلس پر حملہ
  • 26 جولائی کوصدر میں دو فوجی اہلکاروں کا قتل
  • 22 جون کو امجد صابری کا قتل
  • 21مئی کو عائشہ منزل پر دو ٹریفک اہلکاروں کا قتل
  • 20 اپریل کو پولیس اہلکاروں پر حملہ
  • دسمبر 2015 میں تبت سینٹر کے قریب ملٹری پولیس اہلکاروں کا قتل
  • 20 نومبر2015 کو اتحاد ٹاؤن میں رینجرز اہلکاروں پر حملہ
  • 29 اگست 2015 کو سپریم کورٹ کے وکیل سید حامد حیدر کا حسن اسکوائر پر قتل

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ملزمان کا تعلق لشکر جھنگوی نعیم بخاری گروپ سے ہے اور 'ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک کالعدم تنظیم ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'امجد صابری کو 22 جون 2016 کو قتل کیا گیا تھا اور ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے کئی خبریں آئی تھیں لیکن مصدقہ اطلاعات اور ثبوت کے مطابق یہی دو افراد امجد صابری کے قتل میں ملوث ہیں'۔

مزید پڑھیے: معروف قوال امجد صابری قاتلانہ حملے میں ہلاک

انھوں نے کہا کہ 'عاصم عرف کیپری، امجد صابری کے پڑوسی تھے اور اب تک قتل کے حوالے سے وجوہات واضح نہیں ہوئی ہیں تاہم یہ فرقہ وارانہ واردات لگتی ہے کیونکہ امجد صابری مجالس میں جایا کرتے تھے'۔

واضح رہے کہ امجد صابری کو رواں برس 22 جون 2016 کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ 29 اکتوبر 2016 کو ناظم آباد میں خواتین کی مجلس میں فائرنگ ہوئی تھی جس میں 5 افراد ہلاک ہوگئے تھے، اس واقعے کی تفتیش کے دوران متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ان سے تفتیش کے دوران کچھ ثبوت حاصل ہوئے تھے'۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں مجلس پر فائرنگ، 5 افراد ہلاک

ان کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ ماہ 17 اکتوبر کو ایف سی ایریا میں مجلس پر گرینیڈ حملہ ہوا تھا، اس واقعے میں بھی یہی افراد ملوث تھے جبکہ 26 جولائی کو آرمی کے دو اہلکاروں کو قتل کیا گیا تھا اس میں بھی یہ افراد براہ راست ملوث تھے'۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 'مزید تحقیقات جاری ہیں، حاصل ہونے والے ثبوتوں کا جائزہ لیا جارہا ہے اور اس وقت تک کوئی اعلان نہیں کرنا چاہتے جب تک ہم خود مطمئن نہ ہوجائیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ملزمان 12 مزید ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں، پولیس اہلکاروں اور شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے قتل ملوث ہیں۔

وزیراعلی سندھ نے صحافیوں کے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'میں کراچی اور پورے سندھ کے عوام سے درخواست کرتا ہوں کہ اس معاملے میں ہماری مدد کریں اور وہ ملزمان جو اہلسنت والجماعت کے کارکنوں کے قتل میں ملوث ہیں انھیں بھی گرفتار کیا جائے گا'۔

انھوں نے ملزمان کو گرفتار کرنے والے پولیس اہلکاروں کو انعام دینے کا بھی اعلان کیا۔

شہر میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ اور گرفتاریوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'حالیہ دنوں میں فرقہ وارانہ قتل ہوئے ہیں جس کی تفیتش کر رہے ہیں اور اس کے مقاصد کا پتہ کررہے ہیں'۔

مزید پڑھیں: کراچی: علامہ مرزا یوسف حسین اور تاج حنفی زیر حراست

انھوں نے کہا کہ 'پولیس جب فیصل رضاعابدی کو حراست میں لے رہی تھی تو ان کے پاس بغیرلائسنس کا اسلحہ برآمد ہوا جس کی وجہ سے انھیں گرفتار کیا گیا'۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ 'مرزا یوسف کے خلاف پہلے سے کیسز تھے جن پر ضمانت نہیں ہوئی اور وہ فورتھ شیڈول میں شامل تھے اور حالیہ واقعات پر گرفتار کیا گیا جبکہ تاج حنفی کو ایم پی او کے تحت حالیہ واقعات کے بعد گرفتار کیا گیا ہے'۔

وزیراعلیٰ نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ 'حال ہی میں جو واقعات ہوئے ان پر ضرور تفتیش کرنی تھی اس لیے ہم نے دونوں فرقوں کی جانب سے جو افراد اشتعال دلانے میں ملوث ہوسکتے تھے انھیں گرفتار کیا گیا ہے تاہم جن کا تعلق نہیں ہوگا انھیں رہا کیا جائے گا'۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ کے حکم پر ملیر سے احتجاج کے دوران گرفتار ہونے والے افراد کو رہا کردیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں