امرتسر: وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز بھارت کے شہر امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے امرتسر پہنچ گئے۔

واضح رہے کہ پہلے اتوار کے روز ان کی روانگی کی اطلاعات سامنے آئیں تھیں تاہم بعد ازاں ایک روز قبل جانے کا فیصلہ کیا گیا۔

مشیر خارجہ بھارتی وزیراعظم کے عشائیے میں بھی شریک ہوں گے، جبکہ کانفرنس میں افغانستان میں امن کے قیام کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں کا ذکر کریں گے۔

پاکستان اور بھارت میں طویل عرصے سے کشیدگی جاری ہے، اور اب تک قیاس آرائیاں ہوتی رہی ہیں کہ افغانستان اور اس کے پڑوسی ممالک میں علاقائی تعاون بڑھانے اور سیکیورٹی خدشات سے نمٹنے کے لیے ہونے والے اس اجلاس میں بھارت اور پاکستان دوطرفہ بات چیت کا حصہ بنیں گے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاکستان ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کرے گا'

ہفتے کے روز اعلیٰ افسران کے درمیان ہونے والے اجلاس میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس (استنبول) کی چھٹے اجلاس کے حوالے سے مشاورت اور بات چیت کی جائے گی، اس کے علاوہ وزارتی کانفرنس کے اعلانات کے حوالے سے تکنیکی پہلوؤں کو بھی زیرِ غور لایا جائے گا۔

افغانستان اور اس کے پڑوسی ممالک کے درمیان معاشی اور سیکیورٹی تعاون بڑھانے اور دہشتگردی، انتہاپسندی اور غربت جیسے مشترکہ مسائل سے نمٹنے کے 2011 میں شروع ہونے والے ہارٹ آف ایشیا کے اس سلسلے میں پاکستان، بھارت، افغانستان، آذربائیجان، چین، قازقستان، کرغزستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔

ڈیزاسٹر مینیجمنٹ، انسداد دہشت گردی، انسداد منشیات، تجارت اور سرمایہ کاری، علاقائی انفرااسٹرکچر اور تعلیم وہ 6 اہم پہلو ہیں جن پر یہ 14 ممالک 2013 سے پراعتماد اقدامات کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اس عمل میں 17مغربی ممالک اور 12 بین الاقوامی اداروں کی حمایت بھی شامل ہے جو اپنے اعلیٰ نمائندگان اس کانفرنس میں شرکت کے لیے روانہ کرتے ہیں۔

پاکستان کی شرکت، برف پگھل پائے گی؟

بھارت سے تعلقات میں کشیدگی کے باوجود پاکستانی حکومت کی جانب سے اس سال ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کا اہم فیصلہ سامنے آیا، باوجود اس کے کہ نومبر میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس کو نئی دہلی کی جانب سے سبوتاژ کیا گیاتھا۔

مزید پڑھیں: رکن ممالک کا شرکت سے انکار، سارک کانفرنس ملتوی

اس بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ کیا دونوں ممالک اس کانفرنس کو دوطرفہ بات چیت کے لیے استعمال کریں گے جبکہ بھارتی وزیر برائے خارجہ امور کے ترجمان وکاس سواروپ کی جانب سے اس قسم کی کسی بھی گنجائش کو پہلے ہی رد کیا جاچکا ہے۔

وکاس سواروپ کا ایک پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ دہشت گردی کے جاری سلسلے میں مذاکرات نہیں ہوسکتے، بھارت دہشت گردی کو دو طرفہ تعلقات کا نیا معمول نہیں بننے دے گا۔

دوسری جانب بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ پاکستان ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر بھی بھارت سے مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن ہماری پہلی توجہ افغانستان پر رہے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ دو طرفہ بات چیت ہو یا نہ ہو مگر پاکستان نے افغانستان میں قیام امن، بہتری اور ترقی کے لیے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ مضبوط اور ترقی یافتہ افغانستان ہمارے لیے نہایت اہم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں