اسلام آباد: آئکو موس کی نائب صدر فوزیہ قریشی نے کہا کہ اورنج لائن منصوبے کے باعث متاثر ہونے والے ثقافتی ورثوں کے معاملے پر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے فوزیہ قریشی نے کہا کہ جولائی 2014 میں دوحہ میں 'ورلڈ ہیریٹیج کمیٹی' کی کانفرنس کے دوران بھی لاہور کے اورنج لائن ٹرین منصوبے کے حوالے سےانہی خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کے بعد 'ورلڈ ہیریٹیج کمیٹی' کی جانب سے بین الاقوامی ماہرین کا ایک وفد بھیجا گیا، جس کی جانب سے حکومت پنجاب سے 'ہیریٹج امپیکٹ اسسمنٹ رپورٹ' بنوانے کا کہا گیا۔

فوزیہ قریشی کے مطابق اس کے بعد گذشتہ سال جون میں بھی ورلڈ ہیریٹج کمیٹی کی کانفرنس کے دوران اورنج لائن منصوبے سے متاثر ہونے والے ثقافتی ورثوں کا جائزہ لینے کے لیے وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں:اورنج لائن ٹرین منصوبے کی زد میں 11 ثقافتی ورثے

تاہم ثقافتی ورثوں کا معائنہ کرنے والی بین الاقوامی ٹیم کو حکومت پاکستان کی جانب سے ویزا جاری نہیں کیا جا رہا، اگر حکومت صحیح کام کر رہی ہے تو بین الاقوامی وفد کو ویزا جاری کرنے میں تاخیر کیوں کی جارہی ہے۔

معاملے پر حکومت پنجاب کا موقف پیش کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنماء ملک احمد خان نے کہا کہ ’حکومت پنجاب کی جانب سے ہر سطح پر اورنج لائن ٹرین منصوبے کے تحت ثقافتی ورثوں کو نقصان نہ پہنچنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود آئکو موس کی قومی کمیٹی کی تسلی نہ کے باعث معاملہ عدالت میں چلا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آئکو موس کو مطمئن کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے تاہم ثقافتی ورثوں کا جائزہ لینے کے لیے آنے والے وفد کو دورے کے لیے پہلے حکومت پاکستان کو درخواست بھیج کر قواعد و ضوابط کے تحت آنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:اورنج ٹرین منصوبہ: کیا سپریم کورٹ تاریخی ورثہ بچائے گی؟

واضح رہے کہ چینی کمپنی ’سی آر- نورینکو‘ کو دیئے گئے 1.47 ارب ڈالر کے اس منصوبے کے باعث 11 تاریخی مقامات کو خطرات لاحق ہیں۔

ثقافتی ورثے کے ان مقامات میں شالامار گارڈنز، گلابی باغ گیٹ وے، بدوھ کا آوا، چَبرجی، زیب النسا کا مقبرہ، لکشمی بلڈنگ، جنرل پوسٹ آفس، ایوان اوقاف، سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کی عمارت، نابھا روڈ کا سینٹ اینڈریوز پریسبیٹرین چرچ اور بابا موج دریا بخاری کا مزار شامل ہیں۔

لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے عمارتیں مسمار کئے جانے پر اس مسئلے کو منظر عام پر لایا گیا جس کے بعد 20 کے قریب تنظیموں کے ایک گروپ اور کئی افراد نے مل کر حکومت اور ارکان اسمبلی میں لابنگ شروع کرنے کے ساتھ حق آگاہی کی درخواستیں دائر کیں۔

اس کے بعد تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والے اس منصوبے پر لاہور ہائی کورٹ نے کام روکنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ان تمام 11 تاریخی پر خصوصی احاطے کے قوانین لاگو ہوتے ہیں، اور جب تک ان مقامات کی حفاظت کے حوالے سے نئی رپورٹ پیش نہیں کی جاتی تب تک ٹرین منصوبے پر کام معطل رہے گا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Ahmad Jan 07, 2017 01:41am
اگر یو نیسکو کو اتنی ہمدردی ہے تو ان کھنڈرات کو عالمی ورثے میں کیوں شامل نہیں کر لیتا؟
KHAN Jan 07, 2017 08:36pm
السلام علیکم: ثقافتی ورثوں کا معائنہ کرنے والی بین الاقوامی ٹیم کو حکومت پاکستان کی جانب سے ویزا جاری نہ کیا جانا اچھی بات نہیں، اگر حکومت صحیح کام کر رہی ہے تو بین الاقوامی وفد کو ویزا جاری کیا جانا چاہیے۔ خیرخواہ