انٹرنیٹ معاشرے کا ایک اہم جزو بن چکا ہے۔ چاہے ہمیں کسی جگہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنی ہوں، ملازمت کی تلاش ہو، سامان خریدنا ہو، مطالعہ کرنا ہو، فلم دیکھنی یا گانا سننا ہو، یا پھر بوریت بھگانے کے لیے گیمز کھیلنے ہوں، انٹرنیٹ سب کچھ آپ کے ہاتھوں میں لا کر رکھ دیتا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات کا حصول نہ صرف آسان، سستا اور مؤثر بھی ہے۔

لیکن پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو ایک بڑی مشکل یہ درپیش ہے کہ ہمیں جہاں عالمی پس منظر اور چند ترقی پذیر ممالک سے متعلقہ معلومات، ویڈیو، آڈیو، کتب اور دیگر برقی مسودے سیکنڈوں میں حاصل ہو جاتے ہیں، وہاں جب ہم اپنے معاشرے یا ملکی سطح کی معلومات تلاش کرتے ہیں تو اس وقت نہ صرف مشکل ہوتی ہے، بلکہ اکثر مایوسی بھی ہوتی ہے۔

اس کا مداوا ای پبلشنگ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ اس مضمون میں ہم ای پبلشنگ کے فوائد اور مشکلات پر تھوڑی روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتائیں گے کہ ای پبلشنگ کے ذریعے مالی فوائد کس طرح حاصل کیے جاسکتے ہیں یعنی ای پبلشنگ کو بطور بزنس کس طرح شروع کیا جائے۔ چوں کہ ایک مضمون میں تمام پہلوؤں پر غور ممکن نہیں، اس لیے بہت سی چیزوں کو سرسری بیان کیا جائے گا۔

ای پبلشنگ کا تعارف

ای پبلشنگ یا ڈیجیٹل پبلشنگ سے مراد ایسا مواد نشر/شائع کرنا ہے جو برقی (سافٹ فارم) یعنی ڈیجیٹل انداز میں ہو۔ برقی مواد (ای کونٹینٹ) جو روایتی انداز میں کاغذ/یا دیگر میڈیم کے بجائے ڈیجیٹل انداز میں پیش کیا جاتا ہے، اس میں تحریر کے ساتھ ساتھ آڈیو اور وڈیو مواد بھی شامل ہوتا ہے۔ اس مواد کو استعمال کرنے کے لیے ڈیجیٹل آلات جیسے کمپیوٹر، موبائل، ٹیبلٹ وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ سب لوگ جو کسی بھی طرح کا ڈیجیٹل مواد تیار کرتے ہیں، انہیں ای پبلشرز کہا جاتا ہے۔

ای/ ڈیجیٹل پبلشنگ کے کئی فوائد ہیں۔ اس پر لاگت کم آتی ہے خواہ آڈیو، ویڈیو، گرافکس، وغیرہ کسی بھی صورت میں ہو۔ دنیا بھر میں ای پبلشنگ تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس کی وسعت ہے اور اس میں بشمول قاری، مصنف، ناشر، سب کا فائدہ ہے۔

پاکستان میں موجودہ صورت حال

پاکستان میں ابھی تک الیکٹرانک پبلشنگ کا جو بھی کام ہو رہا ہے وہ زیادہ تر ’’مفت میں دستیاب‘‘ ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی لاکھوں ویب سائٹس بطور ای پبلشرز کام کر رہی ہیں جو اپنے وزیٹر کے لیے ڈیجیٹل میگزین، فورم، اخبار، موسیقی، تفریحی، تعلیمی و تربیتی اور معلوماتی مواد پیش کرتے ہیں۔

پڑھیے: ویب سائٹ ٹیمپلیٹ ڈیزائننگ: آرٹ کے ساتھ کریئر بھی

لیکن ان میں سے اکثریت کی آمدنی کا انحصار گوگل ایڈ سینس کے اشتہارات پر ہے، خیال رہے کہ یوٹیوب بھی گوگل ایڈ سینس پروگرام کا حصہ ہے، جس وجہ سے عالمی سطح پر اپنے مواد تک وزیٹرز کو متوجہ کرنے کے لیے زیادہ تر ای پبلشرز اپنے موضوعات کے لیے پہلی ترجیح انگریزی زبان کو دیتے ہیں۔

کچھ پاکستانی ای پبلشرز حقوقِ دانش (کاپی رائٹ) کا خیال نہیں کرتے، خاص طور پر موسیقی و فلم کو ڈاؤن لوڈ اور ٹیکسٹ کو کاپی پیسٹ کیا جاتا ہے۔ چوں کہ انہوں نے فری میں یہ شائع کرنا ہے اور اشتہارات سے ان کو نہایت قلیل آمدنی ہونی ہوتی ہے، سو وہ کسی قسم کا خاص تخلیقی کام نہیں کرتے۔

ای/ویب پبلشنگ کے مذکورہ ماڈلز غیر مستحکم ہیں۔ اشتہارات سے آمدنی، فنڈنگ، اور مفت مواد یہ سب غیر سنجیدہ بزنس ماڈلز ہیں۔ چوں کہ اس طرح آمدنی کا انحصار کسی دوسرے پر ہے، اس لیے جب اشتہار یا فنڈنگ بند ہو جاتی ہے تو اس بزنس کو قائم رکھنا کافی مشکل بن جاتا ہے۔ خیال رہے کہ گوگل ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ایسے پاکستانی ویب پبلشرز کو اپنے پروگرام سے نکال دیتا ہے جو اس کے پروگرام قوانین پر عمل نہیں کرتے۔

ای/ویب پبلشرز کا بہتر بزنس ماڈل کیا ہے؟

ای/ ویب پبلشنگ کا زیادہ بہتر بزنس ماڈل 'خدمات کی فروخت' ہے یعنی ویب سائٹ کے صارفین/وزیٹرز سے مواد کی فراہمی کے عوض رقم وصول کرنا۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ماڈل شاید پاکستان میں نہیں چل سکتا، تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ ماڈل پاکستان میں کافی برسوں سے کام کر رہا ہے اور اس وقت کئی چھوٹی بڑی ویب سائٹس موجود ہیں جو اس ماڈل کے تحت الیکٹرانک پبلشنگ کا کام انجام دے رہی ہیں اور ایک حد کامیاب بھی ہیں، یا کامیابی کی طرف سفر طے کر رہی ہیں۔

ان میں آن لائن میگزینز اور تعلیم و تربیت (ای لرننگ) کی ویب سائٹ شامل ہیں جو اپنا تحریری اور آڈیو/وڈیو مواد فروخت کرتی ہیں اور آن لائن رجسٹریشن سے آمدنی حاصل کر رہی ہیں۔ ان میں کلک ٹو لرن ڈاٹ پی کے، پاک ایم سی کیو ڈاٹ کام، ڈپلومہ ڈاٹ ای ڈی یو، اردو ڈی وی ڈی ڈاٹ کام زیادہ نمایاں ہیں جبکہ بڑے اور کامیاب ای پبلشرز میں ’’زمین ڈاٹ کام، روزی پی کے، پاک وہیلز ڈاٹ کام شامل ہیں۔

پاکستانی مارکیٹ کس قدر مضبوط ہے؟

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی مارکیٹ میں اطلاعات و معلومات کی فروخت کا کاروبار کس قدر ممکنہ طور پر مستحکم ہے۔ اس بارے میں کوئی زیادہ درست اعداد و شمار تو موجود نہیں، لیکن اکثر ماہرین کے مطابق پاکستان میں الیکٹرانک پبلشنگ کا بنیادی لحاظ سے ممکنہ استحکام بالکل موجود ہے۔

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستانی مارکیٹ میں بھی الیکٹرانک پبلشنگ کا بزنس فروغ پا سکتا ہے۔ اس طرح ہزاروں افراد کو روزگار بھی حاصل ہو سکتا ہے۔

پڑھیے: گوگل کے ذریعے ڈالرز کیسے کمائیں؟

انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں کی ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ پر جاری شدہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2014 کے اکتوبر تک پاکستان میں تقریباً ڈھائی کروڑ افراد انٹرنیٹ استعمال کنندہ ہیں۔ اگرچہ یہ تعداد پاکستان کی کُل آبادی کے مقابلے کافی کم ہے پھر بھی یہ تعداد دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ یہ ڈھائی کروڑ افراد مضبوط قوت خرید رکھتے ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ فیصد کو بھی صارف میں تبدیل کر دیا جائے تو پاکستان میں الیکٹرانک پبلشنگ کا بزنس اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتا ہے۔

امکانات اور فائدے

اگر پاکستان میں حکومت اور عوام بطور استعمال کنندہ سب مل کر اس کاروبار میں سنجیدگی سے حصہ لے تو پاکستان میں الیکٹرانک پبلشنگ کا کاروبار فروغ پاسکتا ہے۔ جس سے بہت سے فائدے حاصل ہوں گے ہزاروں کی تعداد میں نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، انٹرنیٹ پر موجود مواد کا معیار بہتر ہوگا، منصفین/ تخلیق کاروں کو جب روزگار ملے گا تو نئی فکر اور سوچ نمو پائے گی۔ اس طرح مجموعی طور پر معاشرے کی فکری ترقی ہو گی اور مادی ترقی کی رفتار بھی تیز ہو سکتی ہے ۔

الیکٹرانک پبلشنگ کا مواد؟

باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی الیکٹرانک پبلشنگ میں کثیر الجہتی کام کرنے کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ آڈیو، ویڈیو، تحریری مواد اور آرٹ سمیت بے شمار شعبہ جات سے وابستہ تخلیق کار اپنے ہنر کو فروخت کر سکتے ہیں۔ کیس اسٹڈی کے طور پر ہم کتابوں کی صورت میں فروخت ہونے والے تحریری مواد پر غور کرتے ہیں۔

یہ بات اپنی جگہ ایک حد تک درست ہے کہ پاکستان میں کتب خریدنے کا رحجان کافی حد تک کم ہے، لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ناشر/پبلشرز حضرات صرف ان ہی موضوعات پر کتاب شائع کرتے ہیں جس کے ایک خاص تعداد میں خریدار متوقع ہوں۔ ایسے موضوعات کی کتابیں جن کی سالانہ چار پانچ سو کاپیاں فروخت نہیں ہوسکتیں، ان کی اشاعت ممکن نہیں۔

روایتی کاغذ پر اشاعت کے بعد سے بڑا مسئلہ تقسیم کار کا ہوتا ہے۔ کتاب، میگزین اور اخبار، کی تیاری اور اشاعت سے زیادہ مشکل کام انہیں خریدار تک پہنچانا ہوتا ہے، پھر کتب کی دکانوں سے رقم کی وصولی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

بعض دفعہ کتاب/میگزین کی قیمت سے زیادہ اخراجات اس کی ترسیل پر آجاتے ہیں، (خاص کر بیرون پاکستان) کاغذ کی کتاب کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔ کتاب کی تیاری، ترسیل اور پبلشرز کی لاگت اور منافع یہ سب خریدار برداشت کرتا ہے۔ مصنف کو عموماً ایک کتاب سے سال کے بعد چند ہزار روپے ہی وصول ہو پاتے ہیں جس بناء پر ہمارے معاشرے میں تخلیقی کام کو فروغ نہیں مل پاتا۔

لیکن اگر مصنف خود بطور الیکٹرانک پبلشر اپنے کام کو شروع کریں اور اپنی کتاب کو ای بُکس کی صورت میں فروخت کریں تو یہ نہ صرف کم قیمت میں، بلکہ فوری طور پر خریدار کو فراہم کی جا سکتی ہے۔ عموماً ایک ہزار روپے مالیت کی کتاب پر مصنف کو دو سو روپے رائلٹی ملتی ہے جبکہ ایک ہزار کتابوں کی فروخت مکمل ہونے میں دو سال لگ جاتے ہیں، یعنی ایک کتاب سے صرف ایک لاکھ روپے آمدنی سالانہ حاصل ہوتی ہے۔

پڑھیے: یوٹیوب: بے تحاشہ آمدنی کا آسان ذریعہ

اگر مصنف/تخلیق کار خود الیکٹرانک پبلشنگ شروع کرے اور ایک ہزار ممبرز بنانے میں کامیاب ہوجائے، اور ایک سال میں ایک ہزار روپے فی ممبر کے حساب سے فیس وصول کرے، تو اسے دس لاکھ روپے آمدنی ہوسکتی ہے۔ جس سے وہ سال میں تین چار کتاب کا مواد (ای بکس کی صورت میں) تخلیق کر سکتا ہے۔ آئندہ سالوں میں ممبرز سے جو آمدنی ہو گی، وہ منافع ہی منافع ہے چوں کہ اس کی لاگت گزشتہ سال ہی پوری ہو چکی ہو گی۔

الیکٹرانک پبلشنگ سے نہ صرف معلومات بلکہ تفریحی، تعلیمی، تربیتی سمیت کئی شعبوں میں کام کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ اخبارات، ٹی وی، روایتی کتابیں، ان سب کا دائرہ کار انتہائی محدود ہوتا ہے اور جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا، کہ وسیع پیمانے پر ان کی رسائی مشکل ہوتی ہے۔

لیکن انٹرنیٹ پرالیکٹرانک پبلشنگ کے ذریعے آپ اپنے تخلیق کردہ مواد کو اس کے ہدف صارفین یا دلچسپی رکھنے والوں تک جلد از جلد اور باآسانی پہنچا سکتے ہیں، چاہے پھر ان کی تعداد چند درجن ہی کیوں نہ ہو، آپ کا مواد ان تک باآسانی پہنچ جاتا ہے۔

الیکٹرانک پبلشنگ کس طرح شروع کی جائے؟

اگر آپ مصنف، تخلیق کار، یا استاد ہیں، یا اپنے طور پر کسی قسم کی تخلیقی خدمات دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں کو آن لائن اپنی خدمات فروخت کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو الیکٹرانک پبلشنگ کے کام سے فوری منسلک ہو جانا چاہے، کیوں کہ اس کام کا مستقبل بہت روشن ہے۔

اس بارے میں مزید معلومات کے لیے آپ ہمارا گذشتہ مضمون اپنا آن لائن کاروبار کیسے شروع کیا جائے؟ کو مکمل یا آخری حصہ ’ای کامرس کا آغاز کیسے کریں؟‘ کا مطالعہ کرسکتے ہیں، جس میں اس موضوع پر کافی تفصیلی معلومات موجود ہے۔

الیکٹرانک پبلشنگ کے بزنس کے فروغ سے نہ صرف ملک میں روزگار کی نئی راہیں ہموار ہوں گی بلکہ اس سے پاکستانی معاشرے، خاص طور پر نوجوان نسل کو دوبارہ علمی و ادبی سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔ نیز اس سے ہماری انٹرنیٹ سوسائٹی کو زیادہ بہتر مقامی معلومات/مواد میسر آسکے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

surrary Jan 25, 2017 04:41pm
یہ کام میرے خیال میں ہر منصف خود سے نہیں کرسکتا ۔ ہاں بڑے پبلشرز اس طرح کا انتظام کرسکتے ہیں۔ چونکہ پیسے کی وصولی ای بکس کی تیاری ابھی آسان کام نہیں ۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر جو تخلیقی مواد شائع کیا جائے گا۔ وہ کاپی ہو کر دوسری ویب سائٹ پر فری میں دستیاب ہوگا۔ تو لوگ پیسے دے کر کیوں خریدیں گے ۔ بہت سارے اردو بکس/ ناول بغیر اجازت کے نیٹ پر موجود ہیں۔ اس کا کوئی حل موجود ہے ؟
حسن اکبر Jan 26, 2017 12:15pm
@surrary بہت شکریہ : آپ نے میرے بلاگ پر سوال کیا ۔ عرض یہ ہے کہ ہرمنصف خود بھی یہ کام کرسکتا ہے ۔ منصف نے تمام فنی کاموں کو خود نہیں کرنا۔ بلکہ آئی ٹی کے کسی ماہر سے رابطہ کرنا ہے ۔ اور پاکستان میں بے شمار آئی ٹی کے ماہر موجود ہیں۔ جو مناسب پیسے میں یہ کام کرسکتے ہیں۔ آئی ٹی ماہر کو ویب سائٹ اور ای بکس سیٹ اپ تیار کرنے کا ایک دفعہ ہی معاوضہ ادا کرنا ہوگا جب کہ پبلشرز کو ہر دفعہ ۔ جس سے منصف کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا آج کل کئی ایسے طریقہ موجود ہیں۔ جس سے مواد کو لاک کیا جاسکتا ہے ۔ جب کہ ویب سائٹ کے کسی حصہ کو باآسانی پرائیویٹ قراد دیا جاسکتا ہے ۔ جہاں صرف ممبران کو رسائی حاصل ہوتی ہے ۔ یہ کام کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ تقریبا 90 سے زائد مواد کو کوئی چوری نہیں کرتا ۔ صرف دس فیصد سے کم ہوتا ہے ۔ جس کو چوری کرنے کی کوشش کی ہوتی ہے ۔ اور وہ بہت مشہور ہوتا ہے ۔ لیکن اس مشہور مواد کو بھی مطلوب خریدار مل جاتے ہیں۔ جس سے لاگت اور منافع پورا ہوجاتا ہے ۔ کافی زیادہ امید ہے کہ بہت جلدی حکومت کاپی رائٹ کے قانون اور اسکے نفاذ کی کوشش تیزی کردے گی ۔