واشنگٹن: امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کی اسرائیلی شہر تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کے لیے اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی سے فون پر مشاورت کی.

امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق امریکی صدر نے اسرائیلی وزیراعظم سے بات چیت کے دوران تل ابیب میں موجود امریکی سفارت خانے کو مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) منتقل کرنے کے پہلے سے طے شدہ منصوبے پر بات چیت کی۔

یہ خیال رہے کہ مقبوضہ بیت المقدس یا یروشلم، جہاں امریکا اپنا سفارت خانہ منتقل کرنا چاہتا ہے، فلسطینیوں کے مطابق ان کی ریاست کا حصہ ہے تاہم اسرائیل نے یہاں یہودی بستیوں کو آباد کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے دونوں رہنماؤں سے امریکی صدر کی فون پر ہونے والی بات چیت کی تصدیق کی گئی ہے تاہم اس حوالے سے مزید معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔

صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی کسی بھی غیر ملکی رہنما کو یہ پہلی فون کال تھی، جیسا کہ نئی انتظامیہ سمجھتی ہے کہ سفارت خانے کی نئے شہر میں منتقلی سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان نئے اختلافات پیدا ہوسکتے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس فیصلے سے جہاں بیشتر امریکی نژاد یہودیوں گروپوں کو خوشی ہوگی وہی امریکا کے عرب اتحادیوں کی جانب سے منفی رد عمل آنے کا بھی خدشہ ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا نے ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی

واضح رہے کہ مصر ان دو عرب ممالک میں سے ایک ہے جنھوں نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے ہیں اور ٹرمپ کی انتظامیہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ قائرہ کی حمایت مذکورہ طے شدہ منصوبے پر عمل درآمد کیلئے کارگر ثابت ہوگئی۔

1995 میں منظور ہونے والے ایک امریکی قانون میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ وہ اپنا سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) منتقل کریں، لیکن اس کی منتقلی کی حتمی تاریخ اور وقت کا تعین امریکی صدر کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا۔

تاہم امریکی صدر کی جانب سے ہر سال میں دو مرتبہ یہ سرٹیفکیٹ کانگریس کو جاری کیا جاتا رہا ہے کہ مذکورہ تجویز امریکی مفاد میں نہیں ہے اور آئندہ کا سرٹیفکیٹ مئی میں جاری کیا جانا ہے۔

امریکی میڈیا نے نشاندہی کی ہے کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مصر کے ہم منصب سے خوشگوار تعلقات قائم ہیں جنھوں نے نومبر میں صدر منتخب ہونے پر ان کی تعریف کی تھی۔

اس موقع پر مصر کے صدر نے اس اُمید کا اظہار بھی کیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ان عرب ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کریں گے جن کے ساتھ سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور میں تعلقات کشیدہ تھے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ داعش کے خلاف جنگ کیلئے امریکی فوج کو مزید اختیارات دینے کیلئے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرنے والے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ سابق صدور کی پالیسی نہ اپنائیں، طالبان کا انتباہ

یاد رہے کہ عراق میں داعش کے خلاف جنگ کیلئے 6000 امریکی موجود ہیں جبکہ شام میں داعش کے خلاف لڑنے والے خصوصی امریکی اہلکاروں کی تعداد 500 ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور ایگزیکٹو آرڈر کے مطابق انتظامیہ کو میکسیکو سے منسلک سرحد پر دیوار قائم کرنے کی اجازت دی جائے گی، خیال رہے کہ امریکی صدر کی جانب سے اپنی صدارتی مہم کے دوران امریکا کے دیہی علاقوں سے مہاجرین کی آمد کو روکنے کے اعلان کے بعد انھیں مزید پزیرائی حاصل ہوئی تھی۔

اس کے علاوہ ان کی جانب سے منظور کیے جانے والے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے انتظامیہ کو حکومت کے اندر سائبر سیکیورٹی اقدامات اور روس پر لگائے گئے ہیکنگ کے الزامات کی جانچ پڑتال کیے 90 روز کا وقت دیا جائے گا۔

یہ رپورٹ 24 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں