اپنے کیرئیر میں آگے بڑھنے کے بہترین اصولوں میں سے ایک کو سمجھنے کے لیے زیادہ ذہانت کی ضرورت نہیں جو کہ اپنی ذات کا نظر آنا اور سنے جانا ہے۔

مگر اکثر ایسا نہیں ہوتا اور خواتین خود کو دفاتر میں نادیدہ سمجھتی ہیں جن کی آراء، مقاصد اور خیالات کو نظرانداز کردیا جاتا ہے یا بدترین امر یہ ہوتا ہے کہ انہیں چوری کرلیا جاتا ہے اور وہ بھی دیدہ دلیری سے میٹنگ میں ان کے سامنے ہی۔

اگر تو آپ ملازمت پیشہ خاتون ہیں تو 2017 وہ سال ہے جب آپ کو اپنے ساتھ ہونے والے اس سلسلے کو روکنا چاہئے۔

اس سال خواتین کے عالمی دن کا مرکزی خیال ہی یہ ہے بی بولڈ فار چینج، جس کا مقصد دفتری دنیا میں صنفی مساوات کا حصول یقینی بنانا ہے۔

مگر ایسا کرنے کے لیے آپ کو کیا کرنا چاہئے تو اس کے لیے یہ ٹپس فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہیں۔

سب سے پہلے اپنی ذات کو اہمیت دیں

خوداعتمادی ہی کمیونیکشن کی کنجی ہے اور یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔

پاکستان سافٹ وئیر ہاﺅسز ایسوسی ایشن فار آئی ٹی اینڈ آئی ٹیز (P@SHA) اور دی نیسٹ آئی/او کی صدر جہان آراءکے مطابق ' میرے خیال میں یہ بات ضروری ہے کہ خواتین سب سے پہلے اپنی قدر کا احساس کریں، میں یہ نہیں کہہ رہی ہیں کہ آپ خودپسند یا تکبر کا اظہار کریں مگر میرا مشورہ ہے کہ خود کو حقیر بھی نہ سمجھیں'۔

تاہم اپنی ذات پر سوفیصد یقین کا احساس اس وقت مشکل ہوتا ہے جب کسی کو مسلسل اہمیت نہ دیئے جانے کی علامات کا سامنا ہو، اس رکاوٹ کا سامنا کرنے اور اپنے اعتماد کو بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی اہلیت پر سرمایہ کاری کی جائے جس کے کئی فوائد سامنے آتے ہیں۔

جہان آراءکے مطابق ' خواتین کو اپنی اہلیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ کمپنیاں انہیں کھونے کے خیال سے پریشان ہوں'۔

آسان الفاظ میں خود کو اتنا اچھا بنالیں کہ نظرانداز کرنا ممکن ہی نہ رہے۔

میٹنگز میں خاموش نہ رہیں

اگر تو آپ اپنی ذات اور آئیڈیاز پر اعتماد کرنے لگی ہیں تو اگلا قدم اپنے خیالات کو میٹنگ روم میں متعارف کرانا ہے۔ الفلاح جی ایچ پی ایسٹ منیجمنٹ کی چیف ایگزیکٹو مہین رحمان کے مطابق ' اس بات کی کوئی تک نہیں کہ میٹنگ کے دوران خاموش بیٹھا جائے اور اپنے ساتھیوں یا سنیئر عہدیداران سے بات چیت نہ کی جائے، کمپنیاں نئے خیالات، آئیڈیا کی قدر کرتی ہیں، میں نے اکثر خواتین کو میٹنگ کے دوران اپنا حصہ نہ ڈالتے ہوئے دیکھا ہے چنانچہ انہیں سائیڈلائن کردیا جاتا ہے'۔

انہوں نے مشورہ دیا ' یہ ضروری ہے کہ دوسری جانب کی بات کھلے ذہن سے سنی جائے اور صرف مسائل کی بجائے ان کے حل کی پیشکش کی جائے'۔

اگر بولنے میں پچکچاہت ہو تو ؟ ماہر نفسیات ڈاکٹر مرسیا رینولڈز کا مشورہ ہے کہ ایسا کرنے کے خطرات کا تجزہ کریں ' خود سے پوچھیں کہ ایسا کرنے سے کیا بدترین ہوسکتا ہے اور کیا بہترین نتیجہ سامنے آسکتا ہے؟ اگر اس خطرے کے نتیجے میں کچھ بہترین ہوسکتا ہے تو پھر بولنے سے گریز کیوں؟'۔

بولنے کے دوران غیر ضروری مداخلت سے بچیں

دفتری بات چیت میں مرد خواتین کے بولنے کے دوران مداخلت کرتے ہیں جو کہ بہت عام رجحان ہے۔ پہلی بات تو یہ تسلیم کرنے کی ہے یہ ٹحیک نہیں، مردوں کو بات چیت میں بالادستی کا حق نہیں چاہے وہ اس طرح کے رویے کا اظہار ہی کیوں نہ کریں، یہ رویہ کتنا اثر انداز ہوتا ہے کہ کوئی سوال ہی نہیں اٹھاتا، اسی لیے ضروری ہے کہ اس کا سامنا کیا جائے۔

اس مسئلے کی روک تھام کا ایک اور طریقہ سیدھا امریکی ایوان صدر یعنی وائٹ ہاﺅس سے سامنے آیا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاﺅس میں کام کرنے والی خواتین نے میٹنگ کے لیے ایک حکمت عملی کو اپنا رکھا ہے ' جب ایک خاتون کوئی اہم نکتہ پیش کرتی ہے تو دیگر خواتین اسے دہراتی ہیں اور اس کا کریڈٹ پیش کرنے والی کو دیتی ہیں، یہ چیز کمرے میں موجود مردوں کو ان کے کام کو تسلیم کرنے پر مجبور کردیتی ہے اور ان کے لیے اس آئیڈیا کو اپنا قرار دینے کے دعویٰ امکان ختم کردیتی ہے'۔

دیگر خواتین جو اپنی آواز سنانے کی خواہشمند ہوتی ہیں، ان کی سپورٹ بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے ایسا کلچر بنتا ہے جہاں خواتین کی آراءکی قدر کی جاتی ہے۔

میٹنگ سے پہلے اپنے آئیڈیا شیئر کرنا

اب بھی اپنے خیالات چرائے جانے کا احساس ہوتا ہے؟ تو یہ ایک اور طریقہ جسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل سے بات کرتے ہوئے ایک امریکن ہیلتھ کیئر کمپنی کی سابق سی ای او سوزن ہارٹ برگ نے انکشاف کیا کہ وہ میٹنگز سے قبل اپنے آئیڈیاز اہم افراد سے شیئر کرتی تھیں۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ میز پر آپ نے کیا خیال پیش کیا چاہئے اسے میز پر پیش کرنے کے لیے آپ نے میٹنگ روم سے باہر بات چیت کا ہی سہارا کیوں نہ لیا ہو۔

بلاضرورت معذرت سے گریز

میٹنگ روم میں خود کو منوانے کی کوشش سے یہ غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے کہ آپ اپنے خیال کے حوالے سے خود کو زیادہ لوگوں کے سر تھوپ رہی ہیں، جس کی وضاحت کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے وغیرہ وغیرہ، مگر کیرئیر کے حوالے سے رہنمائی کرنے والی Tamisha Ford کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ دفتر میں اسی وقت معرت کرنی چاہئے جب آپ کسی کو تکلیف پہنچائے یا اپنے الفاظ سے پیچھے ہٹ جائیں۔

ان کے بقول ' اگر آپ کسی چیز کا مطالبہ کرتی ہیں یا کسی مسئلے کو اٹھاتی ہیں جو آپ کے دائرے میں آتا ہے تو پھر اس پر معذرت کی ضرورت نہیں'۔

سوچ سمجھ کر بولنا

مونٹانا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ایک سروے کے مطابق خواتین میں یہ بہت عام ہوتا ہے کہ وہ اپنے مطالبات یا درخواستوں کے لیے ' ناقص زبان' کا استعمال کرتی ہیں، اس طرح کی زبان کے استعمال کے نتیجے میں یہ احساس ہوتا ہے کہ بات چیت کے دوران پیش کیے جانے والا خیال قابل قدر اشتراک کی بجائے مداخلت ہے، تو بہتر الفاظ کا استعمال کریں اور ' Just '، ' sorry ' اور ' think ' جیسے الفاظ سے گریز کریں بلکہ بہتر اور واضح متبادل الفاظ کا انتخاب کریں۔

پراعتماد باڈی لینگویج کا اظہار

ایک اور طریقہ جس سے خواتین اپنی قدر کو کم کرتی ہیں، ایسے جسمانی انداز اپنانا ہے جو ان کی موجودگی کا احساس کم کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ملیسا جے ولیمز نے وال اسٹریٹ جرنل میں لکھا ' خواتین آراہ دہ انداز سے کرسی پر بیٹھنا چاہئے اور پہلے بولنے سے ہچکچانا نہیں چاہئے یا ضرورت پڑنے پر مداخلت سے بھی'۔

ایک اور جسمانی انداز ان کی موجودگی کا احساس کم کرتا ہے وہ اپنے ہاتھ سامنے کی جانب باندھ لینا ہے، اس کے برعکس قدرتی پوزیشن کو اپنانا چاہئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں