امریکا میں پاکستانی آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ کے ایک سینیئر عہدے دار نے 'انٹرنیشنل ڈپلومہ مل' اسکیم کے سلسلے میں انٹرنیٹ کے ذریعے دھوکہ دہی کی سازش کا اعتراف کرلیا۔

امریکی محکمہ انصاف کی ویب سائٹ کے مطابق '30 سالہ عمیر حامد نے امریکی ڈسٹرکٹ جج رونی ابراہمز کے روبرو اپنے اورپر لگائے گئے الزامات کو تسلیم کیا'۔

امریکی محکمہ انصاف کی پریس ریلیز کے مطابق قائم مقام امریکی اٹارنی جون ایچ کِم نے بتایا کہ 'عمیر حامد نے پاکستان میں بیٹھ کر امریکی صارفین سے دھوکے کے ذریعے لاکھوں ڈالرز بٹورنے میں معاونت کی جنہوں نے یہ رقم ہائی اسکولز اور کالجز میں داخلے اور ڈگری کے حصول کے لیے دیے تھے لیکن ان اسکولز اور کالجز کا وجود ہی نہیں تھا'۔

یہ بھی پڑھیں: ایگزیکٹ کے ساتھ دستاویزات کی تصدیق کا معاہدہ نہیں، امریکا

کم کا کہنا تھا کہ 'اس دھوکہ دہی کی وجہ سے ان لوگوں کو بے کار ڈپلومے اور تلخ تجربے کے سوا اور کچھ نہیں حاصل ہوا جنہوں نے یہ سوچ کر پیسے خرچ کیے تھے کہ وہ تعلیم کے حصول کے لیے خرچہ کررہے ہیں'۔

کِم کا مزید کہنا تھا کہ 'ایف بی آئی اور پوسٹل سروسز میں موجود ہمارے پارٹنرز کی مدد سے ہم صارفین کو ان اسکیمز سے بچانے کے لیے کام کرتے رہیں گے جن سے ہمارے شہری متاثر ہوتے ہیں'۔

امریکی ریاست مین ہیٹن کے سابق اٹارنی پریت بھرارا کے مطابق سافٹ ویئر فرم ایگزیکٹ کے ایگزیکٹو عمیر حامد کو 19 دسمبر 2016 میں حراست میں لیا گیا تھا اور اس کے اگلے ہی روز فورٹ مچل، کینٹکی کی وفاقی عدالت میں انہیں پیش کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستانی کمپنی پر دنیا بھر میں جعلی ڈگریاں بیچنے کا الزام

اُس وقت نیویارک کے امریکی اٹارنی کے دفتر سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ 'ایگزیٹ نے تقریباً 350 ہائی اسکولز اور یونیورسٹیوں سے الحاق کا دعویٰ کیا اور آن لائن صارفین میں ان کی حقیقی تعلیمی اداروں کے طور پر تشہیر بھی کی حالانکہ یہ جعلی تھے'۔

یہ بھی کہا گیا تھا کہ '2014 کے بعد سے مختلف اوقات میں ایگزیکٹ کو یومیہ تقریباً 5 ہزار فون کالز موصول ہوئیں جن میں لوگوں نے ایگزیکٹ کی پروڈکٹس اور ان تعلیمی اداروں میں داخلے کی خواہش ظاہر کی جو مبینہ طور پر ایگزیکٹ سے الحاق رکھتے تھے'۔

پریس ریلیز کے مطابق 'جب صارفین پوچھتے تھے کہ اسکولز کہاں واقع ہیں تو سیلز نمائندے کو یہ ہدایات تھیں کہ وہ جعلی پتے بتادیں'۔

یہ بھی پڑھیں: 'جعلی ڈگری' کیس میں شعیب شیخ کی ضمانت منظور

امریکی حکام نے عمیر حامد پر الزام لگایا تھا کہ وہ فیس بھر کر 'اسکولز' میں داخلہ حاصل کرنے والے صارفین سے غلط بیانی کرکے انہیں 'نام نہاد اسکولز' کی ویب سائٹس پر بھیج دیتا تھا اور کہتا تھا کہ انہیں وہاں سے آن لائن ہدایات اور کورس ورک ملے گا۔

امریکی حکام نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ وہ اضافی فیس کے بدلے 'غلط تعلیمی اسناد' بھی فروخت کرتا تھا۔

یہ الزامات بھی عائد کیے گئے کہ ان اسکولز کے نام استعمال کرکے غلط دعوے کیے گئے کہ یہ اسکولز سرٹیفائیڈ ہیں اور مختلف تعلیمی اداروں سے ان کا الحاق ہے جبکہ یہ بھی غلط بیانی کی گئی کہ ان اسکولز کی جانب سے جاری کردہ ڈگریاں درست ہیں اور انہیں امریکا سمیت مختلف ممالک کی کمپنیاں تسلیم کرتی ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان نے گزشتہ برس امریکا سے درخواست کی تھی کہ وہ ایگزیکٹ کے خلاف تحقیقات میں معاونت کرے جس پر آن لائن جعلی یونیورسٹیوں کی ڈگریاں فروخت کرکے لاکھوں ڈالرز کمانے کا الزام شبہ تھا۔

پریت بھرارا کے بیان کے مطابق مئی 2015 میں پاکستانی حکام کی جانب سے ایگزیکٹ کو بند کیے جانے کے بعد بھی عمیر حامد دھوکہ دہی کے ذریعے امریکی شہریوں سے جعلی ہائی اسکولز اور کالجز میں داخلے کے عوض فیس وصول اور جعلی ڈپلومے فروخت کرتا رہا تھا۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں