کراچی: سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ سید ناصر حسین شاہ نے صوبائی اسمبلی کو بتایا ہے کہ آئندہ کچھ ماہ میں 637 بسیں شہر کی سڑکوں پر آجائیں گی اور تمام غیر قانونی بس اڈوں کو کراچی سے باہر منتقل کردیا جائے گا۔

انھوں نے یہ یقین دہانی سندھ اسمبلی میں ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ سے متعلق پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کرائی۔

اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کی جانب سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ کا کہنا تھا کہ انٹر سٹی بسسز کیلئے 200 سے زائد نئی بسیں جلد بیڑے میں شامل کردی جائیں گی۔

ان سے پوچھا گیا کہ یہ اسکیم ماضی میں بھی متعدد مرتبہ متعارف کرائی جاچکی ہے جس کے جواب میں سید ناصر شاہ کا کہنا تھا کہ مذکورہ اسکیم سے متعلق پہلی مرتبہ 2009 میں اعلان کیا گیا تھا، لیکن یہ کچھ وجوہات کی بناء پر تاخیر کا شکار ہوگئی۔

انھوں نے بتایا کہ ماضی میں ایک ایسی ہی اسکیم پر عمل درآمد نہیں ہو سکا تھا جس میں حکومت نے 14 فیصد تک سرمایہ کاری فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا کیونکہ ٹرانسپورٹرز کو دیگر 86 فیصد سرمائے کا بندوبست کرنا تھا جس میں 70 فیصد قرضہ بھی شامل تھا، تاہم وہ ایسا نہیں کرسکے۔

صوبائی وزیر نے بتایا کہ ٹرانسپورٹرز کو مذکورہ رقم کے بندوبست کیلئے مزید وقت دیا گیا تاہم وہ بینک سے قرضے حاصل کرنے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے منصوبے کو منسوخ کرنا پڑا۔

انھوں نے کہا کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے حکومت اور ٹرانسپورٹرز نے اس مرتبہ 15، 15 فیصد سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے جبکہ دیگر 70 فیصد سندھ بینک سے حاصل کرنے کیلئے حکومت ٹرانسپورٹرز کو مدد فراہم کرے گی۔

انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ حکومت ٹرانسپورٹرز کو انشورنس یا لیزنگ سے متعلق مسائل میں مدد بھی فراہم کرے گی جس کی وجہ سے توقع کی جارہی ہے کہ آئندہ چند ماہ میں بسیں سڑکوں پر آجائیں گی۔

متحدہ قومی موومنٹ کے رکن صوبائی اسمبلی دلاور قریشی کی جانب سے بسوں کو لانے کیلئے دیگر منصوبوں پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ نے بتایا کہ 8000 بسوں کو لانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کے مطابق ہر 3 ماہ میں 870 بسیں لائی جائیں گی۔

منصوبہ 'لاہور ماڈل' کی طرز پر

سندھ کے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ 'لاہور ماڈل' کی طرز پر ترتیب دیا گیا ہے لیکن حکومت کی جانب سے ٹرانسپورٹرز کو کم امداد فراہم کی گئی ہے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا اس منصوبے کے تحت لاہور میں مسافروں سے لی جانے والی رقم کے مقابلے میں کم کرایہ وصول کیا جائے گا۔

پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے رکن سندھ اسمبلی رفیق بانبھن کی جانب سے شہر میں موجود غیر قانونی بس اڈوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں 35 سے 36 بس اڈے کام کررہے ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ اسی طرح، حیدرآباد میں 9 غیر قانونی بس اڈے موجود ہیں، ان تمام غیر قانونی بس اڈوں کو شہروں کی حدود سے باہر منتقل کردیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے داخلی راستوں پر 3 اہم بس ٹرمینلز بنائے جارہے ہیں جن میں حب ریور روڈ، سپر ہائی وے اور نیشنل ہائی وے شامل ہیں۔

صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ نے بتایا کہ جیسے ہی یہ تینوں بس ٹرمنلز کام کا آغاز کردیں گے اور ان میں تمام متعلقہ سہولیات فراہم کردی جائیں گی تو شہر میں غیر قانونی پر قائم کیے گئے بس اڈوں کو بند کردیا جائے گا تاکہ مسافروں کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

انھوں نے کہا کہ پہلے تو ٹرانسپورٹرز کو دوستانہ ماحول میں کہا جائے گا لیکن اگر وہ راضی نہ ہوئے تو انھیں ٹریفک پولیس کی مدد سے منتقل کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ٹرانسپورٹرز سے مذاکرات کیے جارہے ہیں تاکہ وہ نئے ٹرمنل اور شہر کے درمیان ایک شٹل سروس چلا سکیں۔

اسپیکر کی تجویز

سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی نے تجویز دی کہ ٹریفک پولیس کو ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کے زیر انتظام کردیا جائے تاکہ اس کی کارکردگی مزید بہتر ہوسکے، ساتھ ہی انھوں نے صوبائی وزیر کو اس معاملے کو وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ اٹھانے کا بھی کہا۔

انھوں نے یہ تجویز بھی دی کہ وزیر کبھی کبھی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرلیا کریں تاکہ ان سے متعلق تفصیلات حاصل ہوسکیں جو ان کو عوامی مسائل حل کرنے میں مدد فراہم کریں گی۔

ایم کیو ایم کی رکن صوبائی اسمبلی کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال پر کہ کیا شہر کے مضافات میں نئے ٹرمنلز بنانے سے امن و امان کی صورت حال متاثر ہوسکتی ہے؟ صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ نے تسلیم کیا کہ اگر اس خطرے کو ختم نہ کیا گیا تو غیر سماجی عناصر شہر کے داخلی راستوں کو بند کرسکتے ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس حوالے سے مذکورہ ٹرمنلز پر سیکیورٹی اقدامات کے حوالے سے منصوبہ بندی کی گئی ہے تاکہ ایسے عناصر کو ان ٹرمنلز سے دور رکھا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر صورت حال اس سے بھی خراب ہوئی تو ایسے عناصر سے نمٹنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی طلب کیا جائے گا۔

4000 سی این جی بسوں سے متعلق پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے رکن اسمبلی کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ نے بتایا کہ اس منصوبے کا اعلان اس وقت کیا گیا تھا جب وفاق میں پی پی پی کی حکومت تھی لیکن بعد میں یہ محسوس کیا گیا کہ ملک میں سی این جی کی کمی ہے جس کی وجہ سے متعدد سی این جی بسوں کو سڑکوں سے ہٹا لیا گیا۔

بعد ازاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس اسکیم کو منسوخ کردیا جائے۔

مذہبی تہواروں پر کرایوں میں اضافے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ گذشتہ سال 1169 ٹرانسپورٹرز کو پکڑا گیا تھا اور ان کی گاڑیوں کو بند کردیا گیا تھا جبکہ ان کی جانب سے وصول کیے گئے اضافی 38 لاکھ روپے مسافروں کو واپس ادا کردیئے گئے تھے۔

کراچی سرکلر ریلوے کے معاملے میں پیش رفت کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن صوبائی اسمبلی ثمر علی خان کے ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ نے کہا کہ کے سی آر کے 43 کلومیٹر طویل روٹ کا بیشتر حصہ غیر قانونی تجاوزات کی وجہ سے متاثر ہے۔

انھوں نے کہا کہ انسداد تجاوزات آپریشن جاری ہے اور تمام روٹ کو جلد کلیئر کرالیا جائے گا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ بلو لائن، گرین لائن، ریڈ لائن، یلو لائن اور ایدھی لائن کے منصوبوں پر مختلف مراحل میں کام جاری ہے۔

یہ رپورٹ 19 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (2) بند ہیں

ali Apr 19, 2017 09:35am
good initiative if implemented,, all urban cities need good urban transportation, we have to think about our future generations as well, too much private cars will produce carbon and eventually contribute to global warming. Pakistan is already on 7 number worst affected by climate change. such initiatives will definitely reduce carbon foot print and give much needed facility to commuters as well,,
Hanif Apr 19, 2017 09:10pm
Or December Tak....