وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے موجودہ حکومت کی جانب سے لیے جانے والے مقامی اور غیر ملکی قرضوں کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کردیں۔

اسحٰق ڈار کی جانب سے قومی اسمبلی میں جمع کرائے جانے والے تحریری جواب کے مطابق یکم جنوری 2013 سے مارچ 2017 تک حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے تقریباً 220 کھرب 42ارب 20 کروڑ روپے کے قرضے لیے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جنوری 2013 سے جون 2013 تک حکومت نے اسٹیٹ بینک سے 22 کھرب 74 ارب 70 کروڑ روپے قرض لیا، جولائی 2013 سے جون 2014 تک حکومت نے تیزی سے قرضے لیے اور یہ حجم 59 کھرب 25 ارب 40 کروڑ تک جا پہنچا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا مجموعی قرضہ 180 کھرب سے تجاوز

جولائی 2014 تا جون 2015 تک حکومت کے قرض لینے کی رفتار میں تھوڑی کمی واقع ہوئی اور اس نے 52 کھرب 10 ارب 60 کروڑ روپے قرض لیا۔

جولائی 2015 تا جون 2016 تک قرضوں میں مزید کمی آئی اور یہ حجم 42 کھرب 94 ارب 30 کروڑ روپے رہا تاہم جولائی 2016 سے مارچ 2017 کے دوران حکومت نے قرض لینے کا گزشتہ برس کا ریکارڈ توڑتے ہوئے 43 کھرب 37 ارب 20 کروڑ روپے کے قرضے حاصل کیے۔

وزیر خزانہ کے جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ ان قرضوں پر اب تک 853 ارب روپے کا سود ادا کیا جاچکا ہے۔

اس کے علاوہ 30 جون 2013 کو ملکی و غیر ملکی قرضوں کا حجم 134 کھرب 82 ارب 70 کروڑ روپے تھا جو 30 جون 2016 تک بڑھ کر 178 کھرب 24 ارب 60 کروڑ روپے تک جاپہنچا۔

رپورٹ کے مطابق جون 2013 میں مقامی قرضوں کا حجم 86 کھرب 86 ارب 20 کروڑ روپے تھا جو جون 2016 میں 117 کھرب 73 ارب 50 کروڑ روپے ہوگیا۔

مزید پڑھیں: 'موجودہ حکومت نے قرضوں میں 8000 ارب روپے کا اضافہ کیا'

اس کے علاوہ جون 2013 میں غیر ملکی قرضوں کا حجم 47 کھرب 96 ارب 50 کروڑ روپے تھا جو جون 2016 تک بڑھ کر 60 کھرب 51 ارب 10 کروڑ روپے ہوگیا۔

وزیرخزانہ نے انکشاف کیا کہ اکتوبر 2016 سے قبل این جی اوز کی غیر ملکی فنڈنگ کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا، اکتوبر 2016 سے اب تک اقتصادی امور ڈویژن نے 5 این جی اوز رجسٹر کیں۔

اسحٰق ڈار نے بتایا کہ پانچ این جی اوز نے مزکورہ عرصے میں 40 کروڑ 48 لاکھ روپے کی غیر ملکی فنڈنگ حاصل کی جن میں حیدرآباد ریلیف اینڈ ری ہیبلیٹیشن ٹرسٹ، فرینڈز ویلفئیر ایسوسی ایشن، سوشل سروسز پروگرام، ساحل اور ہیلتھ اینڈ ایجوکیشن ڈیولپمنٹ سوسائٹی شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مارچ 2017 سے اب تک وزیر اعظم بلاسود قرضہ اسکیم کے تحت 2 لاکھ 83 ہزار 321 افراد کو قرضے دیئے گئے جن میں 62 فیصد خواتین شامل ہیں۔

کنٹینرز پھنسنے کا معاملہ

چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے خزانہ قیصر احمد شیخ نے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا کہ کراچی کی بندرگاہوں پر ہڑتال کے باعث 70 ہزار کنٹینرز پھنسنے ہوئے ہیں اور کنٹینرز کلئیر نہ ہونے کے باعث 10 دن میں 200 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 10 روز سے صنعتوں کو خام مال کی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے صنعتوں کا پہیہ رک گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا 26 مئی کو بجٹ پیش کرنے کا اعلان

پارلیمانی سیکریٹری رانا افضل نے کہا کہ سندھ حکومت کنٹینرز مالکان کی ہڑتال ختم کرانے میں ناکام ہو چکی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے رکن غلام مصطفیٰ شاہ نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے کنٹینزد کو رہائشی علاقوں میں سے لے جانے سے منع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کنٹینرز کو متبادل راستوں سے گزارنے کے لیے مذاکرات کر رہی ہے۔

علاوہ ازیں وزیر داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے قومی اسمبلی میں تحریری جواب داخل کرایا گیا جس میں انہوں نے بتایا کہ اس وقت بلوچستان میں 33 ہزار 90 افراد کے شناختی کارڈز بلاک ہیں۔

وقفہ سوالات کے دوران وزارت منصوبہ بندی کے سینئیر افسران کی عدم موجودگی پر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے برہمی کا اظہار کیا۔

اسپیکر نے گیلری میں موجود اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو نکال دیا اور کہا کہ جائیں اور سیکرٹری منصوبہ بندی کو بھیجیں اور اگر سیکرٹری ملک میں موجود نہیں تو قائم مقام سیکرٹری کو بھیجیں۔

ایاز صادق نے کہا کہ ان کی جرات کیسے ہوئی کہ وہ قومی اسمبلی اجلاس کو نظر انداز کریں، سیکرٹری منصوبہ بندی آجائیں تو 3 گھنٹے ایوان کی کارروائی دیکھیں اور پھر اجلاس کے اختتام پر میرے چیمبر میں آئیں۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں