اسلام آباد: وفاقی حکومت نے مالی سال 18-2017 کا بجٹ 26 مئی کو پیش کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ڈان سے گفتگو میں بتایا کہ بجٹ جلد پیش کیے جانے کا فیصلہ 28 مئی سے رمضان کی آمد کو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے، جبکہ بجٹ کی تیاری بھی اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی سابقہ حکومتیں مئی میں بجٹ پیش کرنے کے وعدے کرچکی ہیں تاکہ اس پر پارلیمانی بحث کے لیے معقول وقت میسر آسکے، تاہم اس میں کامیابی نہ ہوسکی۔

یہ پہلا موقع ہوگا جب بجٹ جون سے پہلے ہی عوامی طور پر پیش کردیا جائے گا۔

گرمیوں کے آغاز سے لوڈشیڈنگ اور گردشی قرضوں میں ہونے والے اضافے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ چند حلقوں کی جانب سے گردشی قرضوں کے اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر پیش کیے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اسٹیک ہولڈرز اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے مشاورت کے طے شدہ نظام کے تحت سپلائی چین میں 320 ارب روہے کی حد مناسب قرار دی گئی ہے، ’یہی وجہ ہے کہ چند روز قبل جب قرضوں کا حجم 370 ارب روپے تک پہنچا تو ہم نے 50 ارب روپے ادا کردیئے'۔

اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ ’2013 میں میرے عہدہ سنبھالنے کے بعد ادا کیے گئے 480 ارب روپے سے موازنہ کیا جانا غیرمنصفانہ ہے، اسٹیک ہولڈرز، پاور پلانٹس اور فیول سپلائرز کے اپنے ادائیگی شیڈول ہوتے ہیں جو 60 سے 120 روز کے درمیان ہوسکتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کے دعوؤں کے برعکس گردشی قرضے طویل عرصے سے ادا نہ کی گئی ادائیگیاں نہیں۔

وزیر خزانہ کے مطابق 2013 میں سب کی حمایت سے ادائیگیاں کرنا اور قرضے کو صفر پر لانا ایک مشکل فیصلہ تھا، اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک گردشی قرضوں کا حجم 720 ارب روپے یا اس سے زائد ہوچکا ہوتا۔

اس سوال پر کہ رواں مالی سال کے دوران کیا حکومت مزید فنڈز جاری کرے گی جو بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ اور پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے مسائل کی صورت میں مالی خسارے میں اضافے کا سبب بنیں گے، اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ ’دیگر وزارتوں کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں، یہ ان کی بدانتظامی ہے‘۔

تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ وزارت پانی و بجلی کی بات کررہے ہیں یا وزارت پیٹرولیم و قدرتی وسائل کی۔

خیال رہے وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے گذشتہ ماہ وزارت پانی و بجلی پر بدانتظامی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزارت نے پاور پلانٹس سے فرنس آئل کی متناسب لفٹنگ کے بغیر آئل برآمد کیا جس کے نتیجے میں ٹرانسپورٹ فیول یعنی پیٹرول اور ڈیزل کی سپلائی میں کمی ہوئی۔


یہ خبر 17 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں