پشاور ہائی کورٹ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سوات ونگ کے سابق ترجمان مسلم خان کی پھانسی پر عملدرآمد روک دیا۔

خیال رے کہ مسلم خان کو دہشت گردی کے مختلف الزامات پر گذشتہ سال فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اعجاز انور پر مشتل بینچ نے مسلم خان کی اہلیہ ندا بی بی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے یہ حکم جاری کیا۔

ندا بی بی نے اپنی درخواست میں فوجی عدالت کی جانب سے اپنے شوہر کو سنائی گئی سزا کو چیلنج کیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ کے بینچ نے نوٹس جاری کرتے ہوئے وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کو کیس کا ریکارڈ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے اگلی سماعت یکم جون تک مؤخر کردی۔

درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ طارق اسد نے آرمی ایکٹ کے تحت ہونے والے مسلم خان کے ٹرائل پر مختلف اعتراضات عدالت کے سامنے پیش کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم خان کو ستمبر 2009 میں سیکیورٹی فورسز نے حراست میں لیا تھا جس کے بعد ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا، بعد ازاں دسمبر 2016 میں ان کے اہل خانہ کو اخبارات کے ذریعے ان کی سزائے موت کا علم ہوا۔

وکیل نے کہا کہ اہل خانہ کو ان کے مقدمے کی کارروائی کا کوئی ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ واضح ہوسکا ہے کہ مسلم خان کو کن الزامات پر یہ سزا سنائی گئی۔

ایڈووکیٹ طارق اسد کے مطابق انہوں نے ملٹری کورٹ آف اپیل میں بھی اس حوالے سے درخواست دائر کی تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مسلم خان کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی جبکہ آئین کے آرٹیکل 10-اے کے تحت انھیں فیئر ٹرائل کا موقع بھی حاصل نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجرم سات سال تک سیکیورٹی فورسز کی حراست میں رہا اور کسی کو یہ نہیں معلوم کہ اسے کن حالات میں رکھا گیا۔

انہوں نے اپنے دلائل میں ملٹری کورٹ کی کارروائی کو یک طرفہ بھی قرار دیا۔

خیال رہے کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے 28 دسمبر 2016 کو فوجی عدالت کی جانب سے مسلم خان کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کا اعلان کیا تھا۔

آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلم خان معصوم شہریوں کے قتل، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملوں میں ملوث تھا جس کے نتیجے میں 31 افراد ہلاک ہوئے، ہلاک ہونے والے افراد میں انسپیکٹر شیر علی بھی شامل تھے، ان حملوں میں 69 کے قریب افراد زخمی بھی ہوئے۔

بیان میں مزید دعویٰ کیا گیا تھا کہ مسلم خان 4 آرمی اہلکاروں جن میں کیپٹن نجم ریاض راجا، کیپٹن جنید خان، نیک شاہد رسول اور لانس نائیک شکیل احمد شامل تھے، کے قتل اور تاوان کے لیے 2 چینی انجینئرز اور ایک شہری کو اغواء بھی کرچکا تھا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق مسلم خان نے ٹرائل کورٹ میں مجسٹریٹ کے سامنے اپنے تمام جرائم کا اعتراف کیا تھا۔


یہ خبر 26 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں