لندن: برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ٹرانسپورٹ فور لندن ( ٹی ایف ایل) نے لندن کی بسوں سے پاکستان مخالف لگنے والے ’آزاد بلوچستان‘ کے پوسٹر ہٹا دیئے۔

واضح رہے کہ یہ دوسری مرتبہ تھا کہ لندن کی ٹرانسپورٹ پر اس طرح کے پوسٹر آویزاں کیے گئے تھے، اس سے قبل 2 نومبر کو بھی لندن میں ٹیکسیوں پر ایسے ہی ’آزاد بلوچستان‘ کے اشتہار لگائے دیئے گئے تھے۔

اس واقعہ پر لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر منیر احمد کا کہنا تھا کہ ان اشتہارات کے حوالے سے پاکستانی ہائی کمشین نے ٹی ایف ایل سے شکایت کی تھی اور اشتہارات کو ہٹانے کا کہا گیا تھا، جس پر ٹی ایف ایل نے فوری طور پر یہ اشتہارات ہٹوا دیئے۔

مزید پڑھیں: ’جنیوا میں فری بلوچستان مہم کے پیچھے بھارت اور افغانستان‘

تاہم وہ اس مہم کے لوگوں کو اسی طرح کے پوسٹر بسوں پر لگانے سے نہیں روک سکے۔

اس بارے میں پاکستانی ہائی کمشین کی جانب سے دوبارہ ٹی ایف ایل انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا جس پر انہوں نے ان اشتہارات کو ہٹا دیا ہے۔

ٹی ایف ایل کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ اشتہار ہماری اشتہارات کی ہدایت کے مطابق نہیں، یہ اشتہار غلطی سے ہمارے اشتہاری پارٹنر کی جانب سے منظور کیا گیا اور ہم سے اس بارے میں رجوع نہیں کیا گیا، تاہم ہم نے ہدایت کی ہیں کہ ایسے تمام اشتہارات کو فوری طور پر ہٹایا جائے۔

لندن میں لگائے جانے والے اشتہارات ستمبر میں جنیوا میں انسانی حقوق کے مباحثے کے وقت لگائے گئے اور یہ اشتہارات ایک ہی جیسے تھے، لندن اور جنیوا دونوں میں چلنے والی مہم کو بھارتی ذرائع ابلاغ میں وسیع پیمانے پر رپورٹ کیا گیا تھا۔

منیر احمد کا کہنا تھا کہ لندن میں آزاد بلوچستان کے اشتہارات کے پیچھے کوئی تیسری قوت ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے پوسٹر برطانیہ کے داراحکومت میں بل بورڈز پر بھی لگائے گئے تھے۔

ان اشتہارات کا معاملہ پاکستانی ہائی کمشین نے ایڈورٹائزنگ اسٹینڈرڈز اتھارٹی ( اے ایس اے) کے سامنے اٹھایا ہے، جس پر انہوں نے ہماری شکایت کو سنا ہے اور ہمیں معاملے کے حل کی یقین دہانی کرائی۔

اے ایس اے کا کہنا تھا کہ ان کے پاس پاکستانی ہائی کمشین کی جانب سے عالمی بلوچ آرگنائزیشن کے خلاف ڈیجیٹل آؤٹ ڈور اشتہارات لگانے کی شکایت درج ہوئی ہے، جس میں ہائی کمشنر نے کا ماننا ہے کہ یہ اشہتارات جارحانہ اور نقصان دہ ہیں۔

اے ایس اے نے کہا کہ ہمیں ابھی صرف شکایت ملی ہے جس کا ہم جائزہ لے رہے ہیں، تاہم اس پر تحقیقات کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

جنیوا میں ’آزاد بلوچستان‘ کے بینرز پر پاکستانی سفیر کا احتجاج

خیال رہے کہ اے ایس اے کی ہدایات کے مطابق کسی علیحدگی پسند گروپ کی جانب سے غیر نشر شدہ ذرائع ابلاغ میں اشتہارات کی ممانعت نہیں ہے لیکن تمام مشتہرین کی طرح وہ بھی قواعد و ضوابط کے تابع ہیں، جس کے مطابق اشہتارات میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جو گمراہ کرنے، نقصان پہنچانے یا جارحانہ طرز پر ہو۔

اس کے برعکس ٹی ایف ایل کا متنازع اور حساس اشتہارات کا جائزہ لینے کا الگ طریقہ کار ہے۔

بلوچ تحریک نے غیر ممکنہ طور پر برطانیہ میں عوامی حمایت کو اپنی طرف کیا، جس میں برطانوی قوم پرس ٹومی روبن سن اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کی تحریک چلانے والے پیٹر ٹیچ ہیل بھی شامل ہیں۔

ٹیچ ہیل نے برطانوی اخبار گارڈین میں لکھے گئے اپنے حالیہ مضمون میں سوال کیا کہ ٹی ایف ایل نے اشتہارات کو ہٹانے کے لیے فوری حکم کیوں دیا؟ ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی لوبی کی جانب سے خوفناک رد عمل سامنے آیا تھا یا پھر ممکنہ طور پر دفتر خارجہ کی جانب سے دباؤ کا سامنا تھا۔

پاکستانی حکام کا ماننا ہے کہ اس طرح کے پوسٹر چائنا پاکستان اقتصادی راہدادی ( سی پیک) کو نقصان پہنچانے کی عالمی سازش کا حصہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی آزادی کے حامیوں کو بھارت کی مدد حاصل ہے اور یہ سی پیک کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان حکام کو اس بات کی کافی عرصے سے فکر ہے کیونکہ لندن بلوچ آزاد پسند رہنماؤں کا مرکز ہے اور یہ رہنما برطانیہ سے بیٹھ کر مہم چلاتے ہیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر بلوچوں کے حقوق کو محفوظ بنایا جاسکے۔


یہ خبر 16 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں