ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع تبدیلی کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آگئی۔

حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی ہدایت پر تشکیل دی گئی تین رکنی کمیٹی میں سینیٹر راجہ ظفرالحق، وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر موسمیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان شامل تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے معاملے سے متعلق مذہبی جماعتوں کی درخواستوں کی سماعت کے دوران سیکریٹری داخلہ کو کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کو یقینی بنانے اور اسے آئندہ سماعت تک عوام کے سامنے نہ لانے کی ہدایت کی تھی۔

رپورٹ کے مندرجات کے مطابق تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے بل کے اصل مسودے، مجوزہ بل میں پیش کی گئی ترامیم اور سینیٹ میں ہونے والی تقاریر کا جائزہ لیا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاسوں میں بل میں کئی ترامیم کی تجاویز دی گئیں، لیکن میں سے کوئی بھی ’ختم نبوت‘ سے متعلق نہیں تھی۔

ویڈیو دیکھیں: دھرنے سے نمٹنے کی لیے حکومت اور فوج کا اہم فیصلہ

رپورٹ میں کہا گیا کہ سینیٹ کمیٹی کی طرف سے ایوان میں بھیجے گئے بل پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر حمداللہ نے ’ختم نبوت‘ کے حلف نامے میں الفاظ کی تبدیلی پر اعتراز اٹھاتے ہوئے اسے اصل حالت میں بحال کرنے کا مطالبہ کیا، مسلم لیگ (ن) نے حافظ حمد اللہ کی ترمیم کی حمایت کی۔

آئینی طریقہ کار کے مطابق بل کو دوبارہ قومی اسمبلی بھیجا گیا کیونکہ قومی اسمبلی کی جانب سے سینٹ کو بھیجے گئے بل کے اصل مسودے میں ترامیم تھیں۔

بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جارہا تھا، تمام جماعتوں کے ارکان کو یہ اندازہ ہوا کہ انہوں نے غلطی کردی جسے دور کیا جانا چاہیے، تاہم اپوزیشن کے سیکشن 203 پر ہنگامہ آرائی کی وجہ سے بل، جو ترمیم شدہ تھا، منظور کر لیا گیا اور اسے حتمی منظوری کے لیے سینیٹ کو بھیج دیا گیا۔

ماحول میں کشیدگی کے باوجود سینیٹ میں ’ختم نبوت‘ کے حلف نامے سے متعلق ترامیم متفقہ طور پر منظور ہوگئیں، جس کے بعد بل کو صدر مملکت نے منظور کرلیا اور وہ قانون بن گیا۔

رپورٹ کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور ہم تحقیقات کرنا چاہتے تھے کہ اصل حلف نامہ کس طرح اور کیوں تبدیل ہوا۔

مزید پڑھیں: چیف ایگزیکٹو کا حکم ماننے کے بجائے آرمی چیف ثالث بن گئے: جسٹس شوکت صدیقی

ذرائع کے مطابق اس کے لیے ایک مشیر سے مشورہ کیا گیا۔

ایک وزیر، جو کمیٹی کی سطح پر بل کا مسودہ تیار کرنے والوں میں سے ایک تھے۔

ایک وزیر کے ساتھ تین یا چار ملاقاتیں کی گئیں جنہوں نے تسلیم کیا کہ بنیادی طور پر یہ ان کی پہلی ذمہ داری تھی کہ وہ یہ دیکھتے کہ مسودے میں کوئی متنازع بات شامل نہ ہو، لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی قانونی مہارت، تجربے اور زبان پر عبور کے باوجود اپنا فرض ادا نہیں کر سکے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ عوام ان لوگوں کے خلاف ایکشن کی توقع کر رہے ہیں جنہوں نے ’ختم نبوت‘ کے حلف نامے کو تبدیل کیا اور اس مسئلے کی وجہ بنے۔

رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی کہ معاملے کے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لازمی طور پر لیا جانا چاہیے۔

رپورٹ پر کمیٹی کے دو ارکان راجہ ظفرالحق اور مشاہد اللہ خان نے دستخط بھی کیے۔

خیال رہے کہ ’الیکشنز ایکٹ 2017‘ میں متنازع ترمیم کے ذریعے ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کے باعث مذہبی جماعتیں اشتعال میں آگئیں اور انہوں نے مغربی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے جان بوجھ کر اس تبدیلی کا الزام لگایا۔

اگرچہ پارلیمنٹ کے ذریعے حلف نامے کو اصل حالت میں بحال کردیا گیا، لیکن مذہبی جماعتوں کی جانب سے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کا مطالبہ اور فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دیا گیا۔

راجہ ظفر الحق کمیٹی کی یہ رپورٹ تاحال کسی آفس کو جمع نہیں کرائی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں