اسلام آباد عدالت نے فیض آباد انٹر چینج پر مذہبی جماعتوں کا جاری دھرنا ختم کرنے کے عدالتی احکامات پر عمل در آمد نہ کرنے پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کردیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران وزیر داخلہ نے عدالت سے اس دھرنے کو ختم کرانے کے لیے 48 گھنٹے کا وقت طلب کیا تھا۔

تاہم مقررہ وقت کے گزر جانے کے باوجود وفاقی وزیر دھرنا ختم کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا ختم کروانے کیلئے عدالت کی 23 نومبر تک کی مہلت

علاوہ ازیں عدالت نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سینٹر کمانڈر کو آئندہ کی سماعت پر طلب کرلیا۔

سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ فیض آباد دھرنے کے پیچھے ایجنسی ملوث ہے'۔

عدالت نے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ راجہ ظفر الحق کی رپورٹ جو پہلے 29 نومبر کو طلب کی گئی تھی، کو 27 نومبر کو پیش کیا جائے۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ اس رپورٹ کو عدالت میں پیش کرنے سے قبل عوام کے سامنے نہیں لایا جائے اور جن افراد کو اس رپورٹ میں نامزد کیا گیا ہے انہیں بیرون ملک سفر کرنے سے بھی روکا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: احسن اقبال کی ایک مرتبہ پھر فیض آباد دھرنا ختم کرنے کی اپیل

بعد ازاں عدالت عالیہ نے کیس کی سماعت 27 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ اس سے قبل 20 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے احسن اقبال سے کہا تھا کہ کورٹ کا احترام نہیں ہورہا، آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی، ان تنظیموں کو سیاسی جماعتوں کے طور پر ڈیل کیا جائے۔

عدالت میں سماعت کے دوران پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سازشی عناصر پاکستان میں ایک مرتبہ پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن اور لال مسجد جیسا واقعہ کروانا چاہتے ہیں تاہم پاکستان بھر کے علماء اور مشائخ کو طلب کیا گیا ہے تاکہ معاملے کا پُرامن حل نکلا جا سکے۔

تاہم وفاقی وزیر داخلہ نے عدالت سے 48 گھنٹے کی مہلت مانگتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ راستہ کلئیر کرالیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے فیض آباد دھرنا ختم کرانے کے لیے انتظامیہ کو 23 نومبر تک کا وقت دے دیا تھا۔

اسلام آباد دھرنا نوٹس: سپریم کورٹ کا حکم نامہ

سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں جاری مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف دیے گئے نوٹس کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔

سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ میں شامل جسٹس مشیر عالم اور جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا۔

حکم نامے میں بتایا گیا کہ ضروری نہیں دھرنا ختم کرانے کے لیے پرتشدد راستہ اختیار کیا جائے۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 'ہمیں بتایا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ میں دھرنے والوں کے مقاصد سیاسی ہیں'۔

حکم نامے کے مطابق آئی جی پنجاب پولیس کی رپورٹ کے مطابق طبی امداد نہ ملنے کے باعث بچے کی موت واقع ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا:سپریم کورٹ کی مظاہرین کی سپلائی لائن بند کرنے کی ہدایت

حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ دھرنے والوں کو غلیظ زبان استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی ان کا کہنا تھا کہ اسلام امن کا دین ہے اور بھلائی کا درس دیتا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں اسلام آباد دھرنے سے متعلق وفاقی وزارتِ دفاع اور وفاقی وزارتِ داخلہ کی رپورٹس عدالت میں پیش کی گئیں تھیں تاہم عدالت نے اٹارنی جنرل کو دھرنے والوں کی کھانے پینے کی سپلائی لائن منقطع کرنے اور ان کے بینک اکاؤنٹس منجمند کرنے کی ہدایات جاری کردی تھیں۔

قبل ازیں سپریم کورٹ میں ایک کیس کی جاری سماعت کے دوران وکلا کے مقررہ وقت پر نہ پہنچنے ہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنے کا نوٹس لیتے ہوئے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ 'اس پر عمل درآمد کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟'۔

خیال رہے کہ سنی تحریک اور تحریک لبیک پاکستان کے سیکڑوں رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پر گذشتہ دو ہفتوں سے دھرنا دے رکھا ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: 'معاملے کا حل پرامن طریقے سے نکل آئے گا'

دھرنے میں شامل مذہبی جماعتوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ حال ہی میں ختم نبوت کے حوالے سے انتخابات کے اُمید وار کے حلف نامے میں کی جانے والی تبدیلی کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں عہدوں سے ہٹائیں۔

واضح رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں 50 لاکھ لوگ مقیم ہیں جن میں سے تقریباً 5 لاکھ کے قریب افراد روزانہ جڑواں شہروں کے 16 داخلی اور خارجی راستوں کو استعمال کرتے ہیں۔

راولپنڈی کے مقامیوں کی بڑی تعداد روزانہ مختلف وجوہات کی بنا پر اسلام آباد کا سفر کرتی ہے، کچھ لوگ تعلیم جبکہ کچھ لوگ روزگار کے لیے وفاقی دارالحکومت پہنچتے ہیں، اس ضمن میں انہیں اسلام آباد ہائی وے کا روٹ استعمال کرنا ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں دھرنا یا احتجاجی مظاہرہ کیا جائے تو انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت کو کنٹینرز لگا کر سیل کردیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: ضلعی انتظامیہ کو مظاہرین کو ہٹانے کی ہدایت

مذہبی جماعت کی جانب سے دیے جانے والے حالیہ دھرنے میں اب تک ایک بچے کی ہسپتال نہ پہنچے کے باعث ہلاکت ہوچکی ہے، جاں بحق بچے کے والدین نے مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تاہم ابھی تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

سٹرک بند کر کے مرضی کے فیصلے مسلط کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے واضح احکامات موجود ہیں کہ شہریوں کو پریشانی سے بچانے کے لیے کسی بھی شخص یا تنظیم کو سڑک بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی وجہ سے جنرل الیکشن آرڈر 2002 میں احمدی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں ’سیون بی‘ اور ’سیون سی‘ بھی خارج ہوگئیں تھیں جو الیکشن ایکٹ 2017 کے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد واپس اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوگئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں