کراچی: حکومت کی جانب سے درآمد کی گئی غیر ملکی استعمال شدہ گاڑیوں کی کلیئرنس کی اجازت کے باوجود کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس اور ٹرمنل آپریٹرز کے درمیان ایک نیا تنازع شروع ہوگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں فریقین کے درمیان یہ تنازع 10 ہزار سے زائد گاڑیوں کے 141 دن تک بندرگاہ پر کھڑے رہنے کی مد میں آنے والے چارجز کی ادائیگی پر شروع ہوا۔

کسٹم ایجنٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے تین نجی ٹرمنل آپریٹرز الحمد، پاک شاہین کنٹینر سروسز اور نیشنل لوجسٹکس سیل (این ایل سی) کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ان کی حدود میں کھڑی تمام گاڑیوں کے چارجز ختم کیے جائیں۔

مزید پڑھیں: استعمال شدہ گاڑیوں کی کلیئرنس: آٹو پارٹس فیکچررز میں مایوسی کی لہر

خیال رہے کہ بندرگاہ پر کھڑی ان ہزاروں گاڑیوں سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کے باعث کلیئرنس نہیں ہوسکی تھی تاہم 23 فروری کو حکومت کی جانب سے درآمد شدہ گاڑیوں کے حوالے سے پرانی پالیسی بحال کی گئی تھی۔

اس حوالے سے کراچی کسٹم ایجنٹس ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل محمد عامر نے ڈان کو بتایا کہ ’ہم نے کسٹم انتظامیہ سے بات کی تھی اور وہ ہمیں تاخیری سرٹیفکیٹ دینے پر راضی ہوئے تھے، جس کے بعد ٹرمنل آپریٹرز کے لیے قانونی طور پر چارجز میں چھوٹ دینا ضروری ہوگا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اندازے کے مطابق ان چارجز کی کل رقم 50 کروڑ سے ایک ارب روپے تک ہوسکتی ہے۔

انہوں نے چارجز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تجارت پر ایک بوجھ ہے جبکہ یہ کار شوروم مالکان کی جانب سے ایک طرح کی تجارت ہے اور اسے تجارت کی طرح ہی دیکھنا چاہیے۔

واضح رہے کہ تنازعے کا شکار ہونے والی زیادہ تر کاریں سامان اور رہائش کی منتقلی کی اسکیم کے تحت درآمد کی گئی ہیں اور یہ سہولت صرف واپس آنے والے تارکین وطن کو فراہم کی جاتی ہے لیکن یہاں یہ دیکھا گیا تھا کہ اس سہولت کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔

جس کے بعد وزارت تجارت کی جانب سے ان اسکیموں کے تحت درآمد کی گئی گاڑیوں کی کلیئرنگ پر نئے قوانین کا اطلاق کیا گیا تھا، جس کے تحت درآمد کنندہ کے نام سے بینک اکاؤنٹس کے ذریعے تمام ڈیوٹیز اور محصولات کی ادائیگی کرنا ضروری تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں استعمال شدہ کاروں کی درآمدات میں 70 فیصد اضافہ

اس بارے میں محمد عامر کا کہنا تھا کہ اس قوانین سے تجارت بند ہوگئی تھی اور 23 فروری تک 10 ہزار گاڑیاں کئی ماہ سے بندرگاہ پر کھڑی تھی، جس کے بعد حکومت نے درآمد کنندگان اور کسٹم ایجنٹس کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے پرانے قوانین بحال کیے۔

برآمد شدہ کار کا تجارت اور صنعت پر پڑھنے والے اثر کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی وجہ ہماری مقامی صنعت ہے کیونکہ ہماری صنعت مقامی سطح پر کاروں کی ضرورت پوری کرنے کے قابل نہیں ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ مقامی اسمبلرز ترسیل کا وقت 6 ماہ تک دیتے ہیں اور وہ مقامی ضرورت کو پورا نہیں کر پاتی، جس کے باعث درآمد کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں