پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر محسن عزیز نے کہا ہے کہ آرٹیکل 62، 63 پر عملدرآمد کروانے کیلئے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے محسن عزیز کا کہنا تھا کہ جو کام اس وقت عدالتیں کر رہی ہیں اس کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے اور اس مقصد کے لیے مؤثر قانون سازی کرنا ہوگی تاکہ کوئی بھی شخص خلاف ورزی کرنے کا مرتکب نہ ہوسکے۔

انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کی نااہلی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک شخص جو وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے عہدے پر فائز ہو اور وہی شخص اقامہ رکھے تو یقیناً یہ نامناسب عمل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جو شخص ایک عوامی عہدے پر رہتے ہوئے دوسرے ملک کے کسی ادارے کے ساتھ کام کر رہا ہو اور وہاں سے آمدنی حاصل کرکے اپنے اثاثے ظاہر نہ کرے تو یہ کام دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے'۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ یہ سب کچھ ہمارے ملک کی روایت بن چکی ہے اور اس کی وجہ قوانین کی کمزوری ہے، کیونکہ سیاستدانوں کو اس طرح کے کام کرنے سے پہلے کسی قسم کا بھی خوف نہیں ہوتا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے خواجہ آصف کو نااہل قرار دے دیا

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ ایسے فیصلے سے دنیا میں پاکستان کے لیے منفی تاثر پیدا ہوتا ہے، مگر اس سے دوسروں کو سبق سیکھنے کا بھی موقع ملے گا تاکہ کوئی اور یہ کام نہ کرسکے۔

پروگرام کے دوسرے مہمان اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا افضل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو چاہیے تھا کہ وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ کے حوالے کر دیتی جو آرٹیکل 62، 63 کی درست تشریح کرسکتی ہے، مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔

انہوں نے کہا کہ 'اقامہ رکھنا ایک غلطی ہوسکتی ہے، مگر یہ کوئی جرم نہیں اور میں سمجھتا ہوں دنیا میں کہیں بھی اس کی سزا تاحیات نااہلی نہیں ہے'۔

لیگی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو جب ہر چیز کا اختیار ہے تو اس قانون کی بہتر تشریح بھی اسی کے ذریعے سے کروائی جانے چاہیے تھی۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر خارجہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ خواجہ آصف نے 2013 میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 110 پر پونے والے انتخابات کے لیے اہل نہیں ہیں، کیونکہ وہ آئین کے ارٹیکل 62(ون)(ایف) کے تحت مقرر کردہ شرائط پر پورا نہیں اترتے، اسی لیے انہیں نااہل قرار دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جج کی خواجہ آصف نااہلی کیس میں لارجر بینچ کا حصہ بننے سے معذرت

عدالتِ عالیہ نے رجسٹرار کو خواجہ آصف کی نااہلی کے فیصلے کی کاپی الیکشن کمیشن کو ارسال کرنے کا بھی حکم دے دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت کو منتحب نمائندوں کو نااہل کرنے کے لیے عدالتی اختیارات کا استعمال کرنا اچھا نہیں لگتا، سیاسی قوتوں کو اپنے تنازعات سیاسی فورم پر ہی حل کرنے چاہئیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سیاسی معاملات عدالتوں میں آنے سے دیگر سائیلین کا وقت ضائع ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار کی جانب سے 11 اگست 2017 کو خواجہ آصف کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل قرار دینے کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی۔

پی ٹی آئی رہنما کی درخواست میں الزام عائد گیا تھا کہ وفاقی وزیر خارجہ نے متحدہ عرب امارات کی کمپنی میں ملازمت کے معاہدے اور اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ کی تفصیلات 2013 کے انتخابات سے قبل ظاہر نہیں کیں اس لیے وہ قومی اسمبلی کی رکنیت کے مستحق نہیں۔

یاد رہے کہ 2013 کے انتخابات میں سیالکوٹ کے حلقہ این اے 110 میں عثمان ڈار کو خواجہ آصف کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم انہوں نے اپنی پٹیشن میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ کا 28 جولائی والا فیصلہ نقل کیا جس میں انہیں اقامہ رکھنے پر نااہل قرار دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں