بھارت: علی گڑھ یونیورسٹی سے قائداعظم کی تصویر ہٹانے پر تنازع

05 مئ 2018
یونیورسٹی میں ہنگامہ آرائی روکنے کیلئےبڑی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات کیے گئے—فوٹو/پریس ٹرسٹ انڈیا
یونیورسٹی میں ہنگامہ آرائی روکنے کیلئےبڑی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات کیے گئے—فوٹو/پریس ٹرسٹ انڈیا

بھارت کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی طلبہ یونین کے آفس میں آویزاں قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر ہٹانے کا تنازع شدت اختیار کر گیا، جس کے بعد انتظامیہ نے انتہاپسند ہندوؤں کی جانب سے مزید انتشار کے پیش نظر علی گڑھ میں انٹرنیٹ سروس معطل کردی۔

ضلعی مجسٹریٹ چندرا بھوشن سنگھ نے حکم جاری کیا کہ دوپہر 2 بجے سے رات 12 بجے تک انٹرنیٹ سروس بند رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں: گجرات فسادات میں ملوث نریندر مودی کی قریبی ساتھی باعزت بری

واضح رہے کہ چند روز قبل بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے رہنما ستیش گوتم نے علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق محمود کے نام لکھے گئے خط میں قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر ہٹانے کا مطالبہ تھا، اگلے ہی روز طلبہ یونین آفس سے قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر غائب کردی گئی۔

خبر رساں ادارے انڈیا ٹو ڈے کے مطابق دوسری جانب اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے جمعرات کو یونیورسٹی انتظامیہ سے محمد علی جناح کی تصویر ہٹانے کا مطالبہ کیا، اگلے ہی روز ہندو یوا واہنی اور آل انڈیا اسٹوڈنٹ کونسل کے انتہا پسند عناصر یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور محمد علی جناح کا پتلا نذرآتش کرڈالا۔

جس کے بعد متعدد شرپسند عناصر کو حراست میں لیا گیا، ان افراد کو پولیس کے حوالے بھی کیا گیا لیکن پولیس نے انہیں چھوڑ دیا۔

مزید پڑھیں: 'گائے ذبح کرنے پر عمر قید کی سزا'

مذکورہ واقعہ بدھ کی شام کو اس وقت پیش آیا جب یونیورسٹی کی طلبہ تنظیم نے سابق نائب صدر محمد حامد انصاری کو لائف ممبرشپ دینے کی ایک تقریب کا انعقاد کیا۔

علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ نے جامعہ کے دروازے کے پاس شرپسند عناصر کے خلاف احتجاج کیا، تو پولیس نے ان پر شدید لاٹھی چارج کیا، جس کے نتیجے میں 22 طالبعلم زخمی ہو گئے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پولیس کی جانب سے طلبہ کی گرفتاری اور لاٹھی چارج کے خلاف احتجاجاً اگلے 2 دن تک کلاسز کا بائیکاٹ کردیا اور جامعہ کے باب سید گیٹ پر احتجاجی دھرنے میں مطالبہ کیا کہ قائد اعظم کی تصویر غائب کرنے کے معاملے کی جوڈیشل تحقیقات کرائی جائے۔

مظاہرین نے جمعہ کی نماز بھی گیٹ کے سامنے ادا کیا۔

اس سے قبل ستیش گوتم نے jinnahFreeAMU# کے ہیش ٹیگ کے ساتھ اس سے متعلق خبریں اور ٹی وی فوٹیج پوسٹ کی۔

یہ بھی پڑھیں: گجرات میں ہندو مسلم فساد، 200 سے زائد گرفتاریاں

اے ایم یو کے ترجمان پروفیسر شافع قدوائی نے سرکاری میڈیا کو بتایا کہ طلبہ یونین کی جانب سےلائف ممبر شپ کے حامل ہر شخص کی تصویر دفتر میں آویزاں کی جاتی ہے، محمد علی جناح کو طلبہ یونین لائف ممبرشپ 1980 میں دی گئی اور محمد علی جناح یونیورسٹی کورٹ کے بانی ممبران میں سے بھی تھے۔

بی بی سی کے مطابق شافع قدوائی نے بتایا کہ سخت گیر ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے کارکن کی جانب سے یونیوسٹی میں شاکھا لگانے کی ضد کی گئی جسے مسترد کردیا گیا جس کے بعد سارا تنازع کھڑا ہوا۔

خبر رساں ادارے دی اکنامکس ٹائمز میں علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر محمد ساجد نے اپنے کالم میں لکھا کہ ‘متعدد شرپسند عناصر کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا گیا لیکن پولیس نے ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے انہیں چھوڑ دیا‘۔

مزید پڑھیں: آزادیءِ ہند ایکٹ 1947 اپنے اندر کیا 'کھلے راز' چھپائے ہوئے ہے؟

انہوں نے مزید لکھا کہ پولیس کی جانب سے غیرقانونی اقدام کے بعد علی گڑھ یونیوسٹی کے طلبہ نے ملزمان کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کا مطالبہ اور احتجاج کیا، جس پر پولیس نے ان پر بدترین لاٹھی چارج کردیا اور متعدد طلبہ کو گرفتار کرلیا۔

پروفیسر محمد ساجد کا یہ بھی بتانا تھا کہ اے ایم یو کے طلبہ نے معاملے کی مکمل جوڈیشل انکوائری کامطالبہ کیا ہے، لیکن افسوس ناک امریہ ہے کہ بھارتی میڈیا جوڈیشل انکوائری کے معاملے پر خاموش ہے۔

وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ اسی تناظر میں بعض بھارتی چینلز کے اینکرپرسن 16 اگست 1946 کے لسانی فسادات کی یادیں تازہ کرانے میں مصروف ہیں جبکہ بی جے پی کے صدر ایل کے ایڈوانی کی راتھ یاترا (بابری مسجد کو شہید) کرنے کی مہم کو بھول گئے، جس کی وجہ سے 1992 میں پورے بھارت میں ہندو مسلم فسادات ہوئے، ہزاروں مسلمان لسانی نفرت کی آگ میں جل کر راکھ ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں