سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک نے ڈان ڈاٹ کام کی 2017 میں سینئر سیاست دان جاوید ہاشمی کی عدلیہ پر تنقید سے متعلق خبر کو پاکستانی صارفین کے لیے بلاک کردیا۔

فیس بک کی جانب سے خودکار پیغام میں کہا گیا کہ ‘آپ کے ملک میں قانونی پابندی کے باعث فیس بک پر آپ کی پوسٹ کے لیے ہمارے پاس محدود رسائی ہے’۔

تاہم پوسٹ تک رسائی بذریعہ وی پی این تاحال ممکن ہے۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ خبر ‘مقامی قانون کی بنیاد پر’ عدم دستیاب ہے اور یہ اقدام غیر اعلانیہ معاہدے کے تحت ریاستی اداروں کی جانب سے کی گئی درخواست پر اٹھایا جاتا ہے جس پر ماضی میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا نے تنقید کی تھی۔

فیس بک نے یہ واضح نہیں کیا کہ ڈان ڈاٹ کام کی خبر سے کس قانون کی خلاف ورزی ہو رہی تھی اور نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ اس حوالے سے درخواست کہاں سے کی گئی تھی۔

پرائیویسی کے حوالے سے تنقید کی زد میں آنے والی کمپنی فیس بک کے لیے نفرت انگیز تقریر اور امریکی انتخابات میں اس کے کردار کے بعد حکومتوں کی ہدایات پر اس طرح کی خود ساختہ پابندی کوئی نئی بات نہیں ہے۔

فیس بک کے پوری دنیا میں ایک ارب 90 کروڑ سے زائد صارفین ہیں، جن کو متنازع طور پر اسٹوری تک رسائی سے روکا جا چکا ہے۔

ویب سائٹ سینسر شپ پالیسی کے باعث کئی صارفین کو بلاک کیا جارہا ہے یا مقبوضہ کشمیر میں نوجوان حریت رہنما برہان وانی کے قتل پر بھارت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر 2016 میں صارفین کی پوسٹس ہٹا دی گئی تھیں۔

بڑھتے دباو کے زیر اثر

فیس بک کی جانب سے جاری ٹرانسپرنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکومت نے جنوری 2017 سے جون 2017 کےدوران ڈیٹا کے لیے فیس بک کو ایک ہزار 50 درخواستیں بھیجیں تھیں، جس کے مقابلے میں رواں سال صرف 719 موصول ہوئی ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 'مقامی قانون کے مطابق توہین اور ملک کی آزادی کے حوالے سے خلاف ورزی پر' پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی درخواست پر 177 اسٹوریز کو پاکستانی صارفین کی رسائی کو محدود کردیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ فیس بک خود پر گزشتہ سال سخت تنقید کا شکار ہوئی تھی، جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور اس وقت کے وزیرداخلہ چوہدری نثار نے تمام توہین آمیز مواد کو نہ ہٹانے کی صورت میں فیس بک پر مکمل پابندی کی تنبیہ کی تھی۔

اس پوسٹ کو بلاک کیوں کیا گیا؟

فیس بک کی جانب سے ڈان ڈاٹ کام کی پوسٹ کو پاکستانی صارفین کے لیے بلاک کرنے کی وجہ بظاہر توہین مذہب یا 'ریاست مخالف' تقریر نظر نہیں آتی۔

درحقیقت یہ خبر ایک سیاست دان کی جانب سے پاکستانی سیاست میں 'عدالتی فعالیت' کے طور پر ابھرنے والے ایک منظرنامے سے متعلق تھی۔

کچھ حلقوں کی جانب سے ' بہت زیادہ متحرک عدلیہ' پر تنقید بڑھ رہی ہے، دوسری جانب اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے اہم شخصیات کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات چلانے کا سلسلہ بھی بڑھ گیا۔

ایک سابق سینیٹر نہال ہاشمی کو حال ہی میں اس وقت جیل جانا پڑا، جب وہ توہین عدالت کے قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب قرار پائے۔

اسی طرح ملتان کے ایک رہائشی کو بھی ایک جج پر جوتا پھینکنے پر 18 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

دوسری جانب ٹی وی چینلز کو بھی ہدایت کی جاچکی ہے کہ وہ ایسی سیاسی تقاریر کو نشر نہ کریں جو کہ توہین کی جانب بڑھتی نظر آئیں جبکہ پیمرا کو بھی ناکافی اقدامات پر اعلیٰ عدلیہ میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔

جلد ہونے والے انتخابات

کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل کا معاملہ ابھی بھی چل رہا ہے اور اسی وجہ سے فیس بک نے کچھ عرصے قبل کہا تھا کہ پاکستانی انتخابات کے حوالے سے وہ ایسے تمام اقدامات کرے گی ' جو انتخابات میں بیرونی مداخلت کی روک تھام کرسکیں'۔

تاہم فیس بک کی حالیہ سنسر شپ پالیسی، مواد کو غیر شفاف میکنزم سے ہٹانا، جیسے ڈان ڈاٹ کام کی پوسٹ کو فیس بک پر بلاک کیا گیا، ممکنہ طور پر صارفین کو انتخابی فیصلے کے لیے اہم معلومات تک رسائی سے محروم کردے گی۔


فیس بک کی جانب سے صارفین کے لیے بلاک کی گئی خبر کا متن درج ذیل ہے۔

پاکستان کو تاریخ کے بدترین بحران کا سامنا ہے، جاوید ہاشمی

سینیئر سیاست دان جاوید ہاشمی نے کہا تھا کہ پاکستان کو جس طرح کے بحران کا سامنا آج ہے ملکی تاریخ میں کبھی نہیں تھا اور ہم زندہ رہنے کے لیے کسی نہ کسی بحران کی تلاش میں رہتے ہیں۔

اسلام آباد میں ملکی سیاسی صورت حال کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ 'یہ آئین کے بغیر چلنے والی سرزمین ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم کسی بحران کی طرف جا رہے ہیں، زندہ رہنے کے لیے ہم کسی نہ کسی بحران کی تلاش میں رہتے ہیں'۔

ماضی میں ہونے والی کوششوں پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بد قسمتی ہے کہ 1973 اور 1956 میں اپنی مرضی کے آئین بنائے گئے اور' آئین کو تبدیل کرنے کے لیے سول و عسکری قوتیں اس کو اپنے پاؤں کی ٹھوکر پر رکھتی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو ایمرجنسی پر چلایا جس کے بعد بعد ضیا الحق آئے اور وہ تو خود آئین تھے'۔

جاوید ہاشمی نے کہا کہ 'ہم وہ قوم نہیں بن سکے جو اپنے آئین کا احترام کرتی ہیں اورگزشتہ 70 سال میں کبھی ایسا بحران نہیں آیا جو آج ملک میں ہے'۔

'سپریم کورٹ سے زیادہ تباہی کسی نے نہیں مچائی'

سنیئر سیاست دان نے عدالت عظمیٰ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 'پرویز مشرف نے بھی دو مرتبہ آئین توڑا اور عدالت عظمی نے مشرف کو آئین میں تبدیلی کا اختیار دیا'۔

جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ آئین سے کھیلنا اور مرضی سے تبدیل کرنا کچھ طبقات کا موروثی کام ہے، ہمارے تین سابق فوجی سربراہ ملک سے باہر تھنک ٹینکس میں بیٹھے ہیں، جن لوگوں کو ہم اپنے جگر کی بوتلیں لگاتے ہیں وہ سبکدوش ہو کر دوسروں کی خدمت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جتنی تباہی اس ملک میں سپریم کورٹ نے مچائی اتنی کسی اور نے نہیں مچائی'۔

انھوں نے کہا کہ 'میں موجودہ سپریم کورٹ کی بات نہیں کر رہا کیونکہ معلوم ہے کہ اگر موجودہ سپریم کورٹ کے بارے میں کوئی بات کی تو توہین عدالت ہو جائے گی'۔

سینیرسیاست دان نے کہا کہ 'موجودہ چیف جسٹس نے تو ائیر پورٹ پر سر عام میرا ہاتھ چوما تھا میں ان کے خلاف کوئی بات کیسے کر سکتا ہوں'۔

انھوں نے کہا کہ 'سپریم کورٹ کے کئی ججوں نے قسمیں کھا کر ایک سے زائد پلاٹ لیے، توبہ توبہ، میں موجودہ ججوں کی بات نہیں کر رہا یہ تو ولی اللہ ہیں'۔

سابق وزیراعظم کی نااہلی کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ 'نواز شریف کی نا اہلی پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں انصاف نہیں کیا'۔

'عمران خان کی سیاست ختم نہیں کرنا چاہتا تھا'

جاوید ہاشمی نے پی ٹی آئی سے علیحدگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'میں نے خود کش حملہ کرکے اپنی نشست چھوڑی تھی، اگر میں استعفی نہ دیتا تو پارلیمنٹ کا آخری دن ہوتا'۔

پی ٹی آئی کے سابق سینیئررہنما کا کہنا تھا کہ مجھے مسلم لیگ (ن) نے فارورڈ بلاک بنانے کا مشورہ دیا تھا جس پرمیں نے انکار کیا حالانکہ پی ٹی آئی کے 15 اراکین اسمبلی کی حمایت مجھے حاصل تھی'۔

انھوں نے کہا کہ 'شاید مجھے ایسا کرنے پر وزیراعظم کا پروٹوکول ملتا لیکن میں عمران خان کی سیاست ختم نہیں کرنا چاہتا تھا'۔

جاوید ہاشمی نے کہا کہ 2014 میں طاہر القادری اور عمران خان کو اکٹھا کرنے والوں نے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سے بھی معاملات طے کر لیے تھے۔

مشرف 1998 میں ایٹمی دھماکے نہیں کرنا چاہتے تھے'

انھوں نے کہا کہ 'ملک کے میڈیا سے اپیل ہے کہ اپنے پروگراموں میں سابق فوجیوں کو نہ بلائیں کیونکہ ٹی وی دیکھ کر لگتا ہے کہ اب بھی مشرف کا دور ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'فوج کی ضرورت ملک کے دفاع کےلیے ہے، ترکی نے اپنی فوج کو کہا کہ بیرکوں میں بیٹھیں'۔

جاوید ہاشمی نے کہا کہ 'مشرف نے نیب ایک پارٹی بنانے کے لیے قائم کیا تھا اگر سیاست دانوں نے احتساب کا ادارہ نہ بنایا تو نیب کو ہی بھگتنا پڑے گا'۔

ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق مسلم لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ '1998 میں اس وقت کے فوج کے سربراہ ایٹمی دھماکے کرنے کے حق میں نہیں تھے جس کی گواہی ڈاکٹر عبدالقدیر نے دی'۔

مشرف کے نقطہ نظر پر انھوں نے کہا کہ 'نواز شریف کارگل جنگ کے دوران امریکا سے واپس آئے تو مشرف چکلالہ میں ان کی آمد پر ناچتے رہے اور نعرے لگا رہے تھے کہ نواز شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں'۔

انھوں نے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ 'خدا کے لیے ایک دوسرے کو آنکھیں مت دکھاؤہمارے لیے پاکستان کے عوام آقا ہیں اور کوئی نہیں، نواز شریف آسمان سے اترا اوتار نہیں اور نہ ہی کوئی ولی اللہ ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'غلطی سب سے ہوتی ہے لیکن بندوق رکھ کر کسی کو عہدے سے نہیں اتارا جا سکتا، پاکستان میں اداروں کے درمیان تناؤ کب نہیں تھا'۔

سابق رکن اسمبلی نے کہا کہ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے لیکن سزا کےلیے ادارے ہونے چاہئیں، فوج نے تو احتساب کے ادارے بنانے سے نہیں روکا۔

انھوں نے کہا کہ 'مشرف بھگوڑا ہے اور جس نے مشرف کو پکڑنے کا کہا وہ پورا خاندان خود پکڑا گیا'۔

تبصرے (0) بند ہیں