وہ امیدوار جو 1210 ووٹ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوا؟

اپ ڈیٹ 28 جولائ 2018
متحدہ مجلس عمل کے محمد عثمان بادینی 1210 ووٹ پر کامیاب ہوئے—فوٹو: فیس بک
متحدہ مجلس عمل کے محمد عثمان بادینی 1210 ووٹ پر کامیاب ہوئے—فوٹو: فیس بک

عام انتخابات کے حتمی نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے متعدد حلقوں کے سرکاری نتائج کا اعلان بھی کردیا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ابتدائی نتائج کے مطابق ملک کا ایک ایسا حلقہ بھی ہے جہاں صرف ایک فیصد سے کچھ زیادہ افراد نے ہی ووٹ کاسٹ کیا۔

جی ہاں، بلوچستان کے چاغی، نوشکی اور کھاران کے علاقوں پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقے این اے 268 میں رجسٹرڈ ووٹرز میں سے صرف ایک اعشاریہ 76 فیصد ووٹرز نے ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

اس حلقے سے کامیاب ہونا والا امیدوار صرف اور صرف 1210 ووٹ لے کر کامیاب ہوا ہے۔

اس حلقے سے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کا امیدوار محمد عثمان بادینی ایک ہزار 210 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق اس حلقے میں 2 لاکھ 34 ہزار 291 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے صرف 4 ہزار 127 افراد نے ووٹ کاسٹ کیا، جن میں سے بھی 154 ووٹوں کو مختلف وجوہات کی بناء پر رد کردیا گیا۔

اس حلقے میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ ایک اعشاریہ 76 فیصد رہا، جو اب تک سامنے آنے والے تمام حلقوں میں سب سے کم ٹرن آؤٹ ہے۔

اس حلقے مجموعی طور پر 22 امیدوار میدان میں اترے تھے، جن میں ایک بھی خاتون نہیں تھی۔

اس حلقے سے انتخاب لڑنے والے امیدواروں میں دوسرے نمبر پر بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے محمد ہاشم رہے جنہوں نے 1137 ووٹ حاصل کیے۔

محمد ہاشم محض 73 ووٹوں سے ہار گئے۔

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

اس حلقے سے تیسرے نمبر پر آزاد امیدوار سردار فتح محمد رہے جنہوں نے 603 ووٹ حاصل کیے، چوتھے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سردار الحاج محمد عمر گرگیج رہے جنہوں نے 453 ووٹ لیے۔

پانچویں نمبر پرمسلم لیگ (ن) کے عبدالقادر رہے، جنہوں نے 265 ووٹ حاصل کیے۔

اس حلقے سے انتخابات لڑنے والے امیدواروں میں سے 2 امیدوار بھی ایسے تھے جنہیں ایک بھی ووٹ نہیں ملا، یعنی شاید وہ خود کو ووٹ کرنا بھی بھول گئے۔

اسی طرح 4 ایسے امیدوار بھی ہیں جنہیں صرف ایک ایک ووٹ ہی ملا، یوں اس حلقے سے 2 امیدواروں کو 2 اور ایک امیدوار کو تین، ایک کو 4، ایک کو پانچ، ایک کو چھ، ایک کو سات، ایک کو گیارہ، ایک کو 72 اور ایک کو 184 ووٹ ملے۔

تاہم انتخابات کے 3 دن بعد 28 جولائی کو ہی الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ حتمی نتائج کے مطابق اسی حلقے سے ایم ایم اے کے محمد عثمان بادینی نہیں بلکہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے محمد ہاشم کامیاب ہوئے، جنہوں نے 14 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔

یہی نہیں بعد ازاں جاری ہونے والے نتائج میں الیکشن کمیشن نے یہ بھی وضاحت کی کہ اس حلقے میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ ایک اعشاریہ 76 فیصد نہیں بلکہ 20 فیصد سے بھی زائد رہا۔

اس حلقے کی طرح ملک کے دیگر حلقوں کے ابتدائی اور حتمی نتائج میں بھی فرق دیکھا گیا، جب کہ متعدد حلقوں کی دوبارہ گنتی بھی کی گئی۔

الیکشن کمیشن کے حتمی نتائج کے مطابق اس حلقے سے پہلے 1210 ووٹ لے کر کامیاب ہونے والے محمد عثمان بادینی نے یہاں سے مجموعی طور پر 12 ہزار 272 ووٹ لیے، تاہم وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ حتمی نتائج میں کامیاب ہونے والا امیدوار دوسرا تھا—اسکرین شاٹ
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ حتمی نتائج میں کامیاب ہونے والا امیدوار دوسرا تھا—اسکرین شاٹ

تبصرے (0) بند ہیں