سابق وزیر خارجہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ہمارے مغربی سرحد سے جڑے ہمسائے نے اپنی پراکسیز کے ذریعے سرخ لکیر عبور کرلی ہے جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے مبینہ طور پر بھارتی سرپرستی حاصل ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام نیوز وائز میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی مذمت کی اور کہا کہ ایک ناخوش گوار واقعہ پیش آگیا۔

پاکستان میں دہشت گردی پر بھارتی سرپرستی کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کلبھوشن یادیو اور نام نہاد علیحدگی کی تحریکیں اس کی مثال ہیں جس کے لیے دہشت گرد پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کے لیے اندر سے یا یورپ اور برطانیہ سے آتے ہیں۔

انہوں نے کرتار پور سرحد کھولنے کے اقدام کو مثبت قرار دیا جہاں سے سکھ یاتری باآسانی اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے پاکستان آسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:کراچی: چینی قونصل خانے پر حملے کی کوشش ناکام، 2 پولیس اہلکار شہید

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ جو لوگ مذہب کو سیاست سے ملا رہے ہیں انہوں نے مسائل کھڑے کیے ہیں اور سیاسی معاملات میں مذہب کو شامل کرنا ایک فیشن بن چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں چاہے کشمیری ہوں، عیسائی یا خود نچلے درجے کے ہندو ان سب کو سیاست کے لیے مذہب میں الجھانے کی عادت بنائی گئی ہے۔

سابق وزیر خارجہ نے ٹویٹر میں اپنے بیان میں کہا کہ ‘ہمارے دشمن اپنی پراکسیز کے ذریعے کام کر رہے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف ہماری کامیابیوں کو کم کرنے کی کوشش ہے’۔

یہ بھی پڑھیں:کرتارپور بارڈر کب کھولا جائے گا،بات چیت میں طے کریں گے،بھارتی ہائی کمشنر

کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘چینی قونصل خانے پر حملہ ایک معمولی واقعہ نہیں بلکہ پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اور اس خطے میں امن کے دشمن کلبھوشن یادیو کے ذریعے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے متحرک ہیں’۔

خواجہ آصف نے کہا کہ گوکہ تاحال ان دہشت گردوں کی شناخت کی تصدیق نہیں ہوئی لیکن اگر یہ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے تعلق رکھتے تھے تو اس حقیقت کی تصدیق ہوگی کہ ان دہشت گردوں کو بھارت سے تعاون ملتا تھا۔

سی پیک پر اس حملے سے پڑنے والے اثرات کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘سفارت خانے یا قونصل خانے پر ایک حملہ علامتی طور پر بڑا ہے لیکن اس مرتبہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مغربی ہمسائیوں نے اپنی پراکسیز کے ذریعے سرخ لکیر عبور کرلی ہے’۔

تبصرے (0) بند ہیں