ہاجرہ: جسے آخری دم تک جھیل کی بربادی کا دکھ رہا

ہاجرہ: جسے آخری دم تک جھیل کی بربادی کا دکھ رہا

ابوبکر شیخ

ہم جہاں آنکھیں کھولتے ہیں، جس آنگن سے پہلی بار نیلا آسمان دیکھتے ہیں، جس نیم کے پیڑ پر بیٹھی ہوئی کوئل کی کُوک سُنتے ہیں، وہ جگہ ہی ہماری کُل کائنات ہوتی ہے۔ اس کائنات کا سب سے بڑا دُکھ اپنے گھر کا آنگن چھوڑنا ہوتا ہے۔ آنگن چھوڑنا تو بہت دُور، ایسے لمحات کے تو تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔

ایسی کیفیت میں جب بے بسی اور لاچاری کے کانٹے زندگی کے چمن میں جابجا نمو ہوجائیں تو روح کی تڑپ کا حساب کیا پوچھنا۔

کیٹی بندر، شاہ بندر یا جاتی کے قریب کلکا چھانی سے سمندر کے راستے آپ باآسانی اُس ’نریڑی جھیل‘ پر پہنچ سکتے ہیں جسے ایک زمانے میں ’رامسر سائیٹ‘ کا اعزاز دیا گیا۔ اپنے زمانے میں اس جھیل کا کُل رقبہ 2 ہزار 540 ہیکٹر پر پھیلا ہوا تھا۔ رامسر کنوینشن، ہیڈ کوارٹر سوئزرلینڈ کی ڈائریکٹری کے مطابق یہ پرندوں کے تحفظ کے لیے ایک شاندار جھیل ہے۔ یہاں اس حوالے سے جو طیور شماریاں کی گئیں اُن کے مطابق ’یہاں موسم سرما میں لاکھوں کی تعداد میں پرندے آتے ہیں۔‘

میں نے اس جھیل کے وہ خوبصورت دن بالکل دیکھے ہیں۔ میں پہلی بار وہاں 1988ء میں گیا تھا۔ وہ جاڑوں کے دن تھے جب آسمان بالکل نیلا ہوتا ہے اور پانی میں لہریں کم۔ جھیل کے مرکز میں بنے ہوئے ایک پُل پر سے میں نے حد نظر تک دیکھا، ساکت پانی کی چادر بچھی ہوئی تھی۔

آپ کیٹی بندر، شاہ بندر یا جاتی کے قریب کلکا چھانی سے سمندر کے راستے باآسانی اُس ’نریڑی جھیل‘ پر پہنچ سکتے ہیں—تصویر ابوبکر شیخ
آپ کیٹی بندر، شاہ بندر یا جاتی کے قریب کلکا چھانی سے سمندر کے راستے باآسانی اُس ’نریڑی جھیل‘ پر پہنچ سکتے ہیں—تصویر ابوبکر شیخ

نریڑی جھیل کی موجودہ حالت—تصویر ابوبکر شیخ
نریڑی جھیل کی موجودہ حالت—تصویر ابوبکر شیخ

کوٹ (Coots) پرندوں کی اتنی بڑی تعداد ان پانیوں پر تیرتی رہتی ہے کہ دُور سے ایک سیاہ لکیر کا سا گمان ہوتا۔ پھوس اور سرکنڈوں کے چھوٹے چھوٹے جزیرے جھیل میں ایسے لگتے تھے جیسے کسی نے وہ ہاتھ سے جمادیے ہوں۔ آسمان پر پرندوں کی قطاروں کی آوت جاوت سارا دن اور ساری رات جاری رہتی ہے۔ کچھ پرندے آ رہے ہیں۔ کچھ اُتر رہے ہیں۔ کچھ جا رہے ہیں۔ پھر حواصل کو اتنی بڑی تعداد میں، میں نے پہلی بار یہاں دیکھا تھا۔

حواصل کا پانی پر اُترنا بھی میں نے یہاں قریب سے دیکھا کیونکہ اس کا وزن 10 کلو سے زیادہ ہوتا ہے اور پَر بھی بڑے اور وزنی ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ اُترنے کے لیے جھیل کا وہ حصہ چُنتی ہیں جس پر 50 سے 100 فٹ تک لینڈنگ کرسکیں۔ پھر جیسے وہ پانی پر اُترتی ہیں تو پر کُھلے ہوتے ہیں، جسم کا آدھا وزن پروں پر اور آدھا پنجوں پر ہوتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے پروں کو سکیڑتی جاتی ہیں اور پر بند ہوتے جاتے ہیں تو لینڈنگ کا عمل بھی ختم ہوجاتا ہے اور یوں وہ بڑے آرام سے پانی میں تیرنے لگتی ہیں اور یہ سارا منظر بڑا ہی خوبصورت ہوتا ہے۔

فطرت کی خوبصورتی تھی جو رنگوں اور روشنی میں بہتی تھی۔ 200 سے زائد مچھیروں کے خاندان تھے جن کی جھونپڑیاں جھیل کے کناروں پر بنی ہوئی تھیں۔ اُن کی خوراک پرندے اور مچھلی تھی، جو وہ تازہ تازہ جھیل سے پکڑتے اور پکاتے۔ اُس زمانے میں، میں وہاں ایک اسٹڈی کے سلسلے میں گیا تھا اور 3 دن قیام کیا۔ واپسی پر میں اُداس تھا کہ، شومئی قسمت اتنی خوبصورت جھیل جو میرے شہر سے اتنی قریب تھی مگر میں نے نہیں دیکھی تھی۔

نریڑی جھیل کے قریب مچھیروں کے گھر—تصویر ابوبکر شیخ
نریڑی جھیل کے قریب مچھیروں کے گھر—تصویر ابوبکر شیخ

2010ء میں مچھیروں کے گھر—تصویر ابوبکر شیخ
2010ء میں مچھیروں کے گھر—تصویر ابوبکر شیخ

بہرحال ’نریڑی‘ کی خوبصورتی کے مناظر نے میرے دل و دماغ میں جڑیں پکڑلیں۔ میں ان مچھیروں کو خوش نصیب سمجھتا ہوں جو اس وسیع اور خوبصورت جھیل کے کنارے، پرندوں کی آوازوں کو سُن کر سوتے ہیں۔

سورج طلوع ہونے کے ساتھ جب مشرق کی طرف پہلے دودھ جیسی سفیدی پھیل جاتی ہے تب یہ لوگ نیند سے بیدار ہوکر پرندوں کی قطاریں دیکھتے ہیں۔ دن کا آغاز ہونے کو ہے۔ گھروں کے آنگن میں ٹھنڈ سے بچنے کے لیے الاؤ جلنے لگتا ہے، ساتھ ہی صبح کی چائے بننے کی تیاری ہوتی ہے۔ الاؤ کے گرد بیٹھے ہوئے لکڑیوں کی مخصوص خوشبو سے مہکی ہوئی دودھ والی چائے پیتے ہیں کہ خوبصورت زندگی کی ایک اور خوبصورت صبح کی آمد ہے۔

کچھ برسوں تک میں مسلسل وہاں جاتا رہا مگر پھر زندگی کے دو پہیوں والی گاڑی کو چلانے کے لیے اس قدر دھکم پیل کرنی پڑی کہ نریڑی کو میں جیسے بھول ہی گیا۔

یہ شاید اگست، 2009ء کی بات ہے، جب میں ایک اور اسٹڈی کے حوالے سے نریڑی گیا۔ میں جب وہاں پہنچا تو سورج کب کا ڈوب چکا تھا۔ گرمی کا موسم تھا اور ہوا بہت ہی کم چل رہی تھی۔ چاند کی آخری تاریخیں تھیں اس لیے اندھیرا تھا جو سیاہی کی صورت میں چہار سُو بہتا تھا۔ البتہ مچھروں کی بیزارکن آوازیں طبعیت کو چڑچڑے پن کی طرف مائل کر رہی تھیں۔

میرے لیے نریڑی کے کنارے پر بنے پشتے پر بستر لگا دیا گیا اور مچھر دانی تان دی گئی اور ساتھ میں یہ بھی بڑی سختی سے ہدایت کی گئی کہ رات کو مچھردانی سے باہر نہیں نکلنا ہے۔ اگر نکلنے کی مجبوری ہو تو ٹارچ کی روشنی سے اچھی طرح جائزہ لے کر ہی باہر نکلیے گا، کیونکہ گرمی کا موسم ہے اور اس موسم میں سانپوں کو بالکل اچھا نہیں لگتا کہ وہ بلوں میں یا گھاس پھوس میں چھپے رہیں۔

شاید پسینہ اُن کو پسند نہیں تھا اس لیے ٹھنڈی رات میں وہ مٹر گشتی کرتے کنارے پر آ نکلتے ہیں اور سمندر نزدیک ہونے کی وجہ سے اوس اتنی پڑتی ہے جس کے باعث مٹی کافی گیلی ہوجاتی ہے، اس لیے اُس کا بھی دھیان رکھیے گا، کہیں پھسل وغیرہ گئے تو لُڑھک کر کہیں بھی جاسکتے ہیں۔ ساتھ میں ہڈی وغیرہ ٹوٹنے کا اندیشہ بھی ہوسکتا ہے اور اس عمر میں ہڈی کا جڑنا کچھ مشکل ہی ہوگا۔

نریڑی جھیل—تصویر ابوبکر شیخ
نریڑی جھیل—تصویر ابوبکر شیخ

مذکورہ ہدایتوں کی گٹھڑی ساتھ لیے ہوئے میں مچھر دانی میں داخل ہوا۔گاؤں والے چلے گئے تو خاموشی چھا گئی۔ آسمان بھیگا ہوا تھا اور تاروں کی بارات چمک رہی تھی۔ کیا خوبصورتی تھی ان ستاروں کی چمک میں۔ فطرت کی خوبصورتی میں ایک سحر بستا ہے۔

جب میری آنکھ کُھلی تو رات کے 4 بجے تھے۔ سیاہی میں صبح کی ہلکی سفیدی مل گئی تھی۔ مچھر دانی سے اوس کے قطرے کسی کسی پل نیچے گرتے۔ پھر مجھے نیند نہیں آئی۔ آئی تو مغرب کی طرف سے دُور کہیں سے اذان کی آواز آئی۔ تھوڑی روشنی ہوئی تو لوگوں کے آواز کے ساتھ چائے آئی۔ میرے پاس آئے ہوئے لوگوں نے مچھر دانی کے آس پاس کا جائزہ لیا اور بتایا کہ 5 سے 6 سانپوں کے رینگنے کے نشان ہیں اور ایک دو سانپ تو آپ کے کافی قریب رات بھر آرام فرما تھے۔

لیکن مجھے سانپوں کے خوف سے زیادہ پریشانی دھند میں لپٹی نریڑی کو دیکھ کر ہوئی۔

’نہیں یہ نریڑی نہیں ہے۔‘

میرے اندر سے ایک ہوک اُٹھی۔

سب برباد ہوگیا تھا۔ سمندری طوفان، سمندر کے آگے بڑھنے اور سیم نالیوں میں شگر ملوں کے اخراج اور میٹھے پانی کی شدید کمی نے نریڑی کی حیات کو نوچ ڈالا تھا۔ نہ گھاس پھوس، نہ سرکنڈوں کی بہار۔ نہ کوئی کشتی، نہ پرندوں کی قطاریں۔ نہ پانی۔ بس لئی کی جھاڑیوں کا جنگل۔ مچھیروں کے 10 سے 12 خاندان تھے جو ان اُداس کناروں پر قیام پذیر تھے۔

نریڑی کے ماضی کی تمام خوبصورتیوں اور سحرانگیزیوں کا میں خود شاہد ہوں وہ اب بس ایک افسانہ سی محسوس ہوتی تھیں۔ ایک خواب بن گئی تھیں، وہی خواب جس کی حیات آنکھ کھولنے کے ساتھ ہی گزری رات کی سیاہی میں دفن ہوجاتی ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ جھیل کے کنارے بسے ہوئے مچھیرے، مرچکی نریڑی کا سوگ منانے کے لیے بیٹھے تھے۔ پھر اچانک مجھے یاد آیا کہ جب یہ وسیع جھیل اپنے جوبن پر تھی تب اس کے پانیوں اور پھوس کے جنگل میں ایک ایسا اکیلا بوڑھا تھا، جس نے گھاس پھُوس پر اپنا چھوٹا جزیرہ بنایا تھا اور اُسی پر وہ رہتا تھا۔ خوراک اور چائے وغیرہ وہ وہیں پر خود بناتا۔

مجھے لگتا ہے کہ جھیل کے کنارے بسے ہوئے مچھیرے، مرچکی نریڑی کا سوگ منانے کے لیے بیٹھے تھے—تصویر ابوبکر شیخ
مجھے لگتا ہے کہ جھیل کے کنارے بسے ہوئے مچھیرے، مرچکی نریڑی کا سوگ منانے کے لیے بیٹھے تھے—تصویر ابوبکر شیخ

نریڑی جھیل کے پاس اب ویرانیوں کا ڈیرہ ہے—تصویر ابوبکر شیخ
نریڑی جھیل کے پاس اب ویرانیوں کا ڈیرہ ہے—تصویر ابوبکر شیخ

وہ فطرت کا عاشق تھا۔ اُس کے بچے و اہل عیال بدین میں رہتے تھے جو جھیل سے 40 کلومیٹر دُور شمال مشرق میں واقع ہے۔ وہ زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ میں جھیل کے اُس مصنوعی جزیرے پر اُس سے ملا تھا۔ میرے پوچھنے پر جعفر مچھیرے نے کہا،

’پیرو مچھیرا عجیب انسان تھا، جھیل میں اکیلا پڑا رہتا تھا۔ بھلے گرمی ہو یا سردی کا موسم، ہم جب مچھلی کے شکار پر جھیل کا رخ کرتے تو کبھی کبھار دو باتیں کرنے اس کے پاس بھی چلے جاتے تھے۔‘

’مگر وہ بات کا مختصر ہی جواب دیتا، لیکن جیسے وہ محسوس کرتا کہ کوئی کشتی اس کی طرف آ رہی ہے تو وہ اپنی المونیم کی کیتلی میں پانی، گُڑ اور پتی ڈال کر، قہوہ بنانے کے لیے آنچ پر رکھ دیتا۔ جس میں آگ کم دھواں کچھ زیادہ نکلتا۔ ہم جیسے دعا سلام کرتے تھے۔ وہ ہر کسی کو چھوٹے چھوٹے خالی کپ دیتا جاتا اور پھر کیتلی میں تیار قہوہ اُن میں اُنڈیلتا جاتا۔

’وہ کوشش کرتا کہ لوگ اُس کے تیار کیے ہوئے جزیرے پر نہ آئیں کیونکہ اُس کی، کی ہوئی محنت پانیوں میں ڈوب سکتی تھی۔ بس جیسے چائے ختم ہوتی تو اُس کی آنکھوں میں ظاہر ہوجاتا کہ ’اب چلے جائیں‘ کیونکہ وہ فطرت سے تنہائی میں جُڑ کر رہنا چاہتا تھا۔

’تقریباً ہر 10 دن بعد وہ بدین جاتا اور اپنے بیٹوں سے چائے، گُڑ، آٹا، چاول وغیرہ لے آتا۔ اس نے چینی کبھی استعمال نہیں کی۔ اس کی خوراک میں مچھلی تھی جو جھیل کے پانیوں میں بہت تھی اس لیے وہ مزے سے جیتا۔‘

جعفر مچھیرا بڑے مزے سے پیرو کی کہانی سُناتا جاتا۔ مزے سے شاید اس لیے کہ وہ خود بھی اُن خوبصورت دنوں کا ایک حصہ تھا۔ اچھے دن ہوں اور ماضی کا قصہ ہو تو آدمی اُن گزرے دنوں سے دیوانگی کی حد تک عشق کرتا ہے۔ پھر اس کا لب و لہجہ سنجیدہ ہوگیا۔

نریڑی جھیل پر رونقیں اب ماضی کی بات بن چکی ہے—تصویر ابوبکر شیخ
نریڑی جھیل پر رونقیں اب ماضی کی بات بن چکی ہے—تصویر ابوبکر شیخ

نریڑی جھیل کے قریب واقع مچھیروں کے گھر—تصویر ابوبکر شیخ
نریڑی جھیل کے قریب واقع مچھیروں کے گھر—تصویر ابوبکر شیخ

جعفر نے بتایا کہ ’1999ء میں جو طوفان آیا تھا، اُس سے 3 دن پہلے پیرو جھیل سے باہر آیا، مگر ہمیشہ کی طرح نہیں، پہلے جب وہ جاتا تو ایسے ہی جاتا۔ اگر کوئی راستے میں مل گیا تو ہاتھ سے اشارہ کرکے سلام کرتا۔ پاؤں ننگے۔ کاندھے پر انگوچھا اور نکل پڑتا بدین کی طرف پیدل۔ مگر اس دفعہ جو آیا تو انگھوچھے میں مچھردانی اور مختصر سا بستر بندھا ہوا تھا۔

’عورتوں کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ہم سے الوداعی کلمات کہے۔ ہم نے بہت پوچھا، کہ کوئی بات ہوئی ہے کاکا پیرو؟ اُس نے زبان سے کوئی جواب نہیں دیا۔ بس نفی میں سر ہلاتا رہا۔ جھیل کو غور سے دیکھا اور چل پڑا۔ پیرو کے جانے کے 4 سے 5 دنوں کے بعد طوفان آیا اور پھر کچھ نہیں بچا۔ نریڑی کو جیسے گلے سے گھونٹ کر مار دیا گیا ہو۔ سیلاب ایک یا 2 ماہ کے بعد چاچا پیرو نے بھی یہ جہان چھوڑ دیا۔‘

جعفر مچھیرے کی یہ بات سُن کر میں حیران تھا۔ ہم کو فطرت نے ہی جنما ہے اس لیے اس سے ہمارا رشتہ انتہائی مضبوط اور گہرا ہے۔ کاکا پیرو جو اس جھیل سے اس قدر شدید محبت کرتا تھا، شاید فطرت نے اشاروں میں اسے بتا دیا ہو کہ، ہمارا ساتھ اتنا ہی تھا۔ اب وقت ہے ایک دوسرے سے بچھڑنے کا۔ یہ کائنات بڑی گُوناگُوں ہے۔ انسان کو اس کی گہرائی سمجھنے کے لیے ابھی صدیوں تک انتظار کرنا ہوگا۔

سارے دن کی فیلڈ کے بعد میں جھیل کے مشرقی کنارے پر اسٹدی کے حوالے سے ’مائی ہاجرہ‘ سے بات چیت کرنے پہنچا۔ نام ہاجرہ تھا مگر سب اُسے ’ہاجو‘ کہہ کر بلاتے۔ دن کا تپتا سورج ڈھل چکا تھا اور وہ اپنے 4 لکڑیوں کے سہارے کھڑے گھر کے آگے بیٹھی تھی، جس گھر کی چھت بس ایک پھوس کا چھپرا تھا۔ خوراک کی کمی اور پریشانیوں کی فراوانی نے سر کے بالوں سے سیاہی چھین لی تھی اور چہرے پر سلوٹوں نے ڈیرا جماتے وقت یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ قبر کی گہرایوں تک اس کا ساتھ دیں گے۔

مائی ہاجرہ—تصویر ابوبکر شیخ
مائی ہاجرہ—تصویر ابوبکر شیخ

گوشت ہڈیوں کو چھوڑ رہا تھا۔ ذہنی تناو کی وجہ سے مسوڑے کمزور ہوگئے تھے اس لیے دانتوں نے کبھی واپس نہ آنے کے لیے وداعی لے لی تھی۔ شوہر نے بھی نصیبوں کی طرح بیوفائی کی اور جا کر قبرستان بسایا تھا۔ بس اُس کی نشانیاں 3 بیٹے اور 4 بیٹیاں تھیں۔ جنہوں نے جا کر اپنے گھر بسائے تھے۔ شاید ایک چھوٹا بیٹا اور بیٹی اس کے ساتھ رہتے تھے۔

میں نے جب گزر سفر سے متعلق پوچھا تو مجھے توقع نہیں تھی کہ اتنا شاندار جواب آئے گا۔ ’مولا کی مہربانی ہے۔ بہت اچھی گزر رہی ہے۔ ہم گھر میں ہیں ہی کتنے۔ گرمیوں کے دنوں میں مچھلی پکڑ کر گزارا ہو جاتا ہے۔ بارشوں کے بعد پھوس سے پاؤڈر نکال کر بیچتے ہیں۔ پھر سردیاں آجاتی ہیں تو پرندوں کو جال میں پکڑ کر بیچتے ہیں۔ یہ سب میں خود کرتی ہوں۔‘

’پرندوں کا جال بھی آپ خود لگاتی ہیں؟‘

’ہاں۔۔ پرندوں کا جال میں خود لگاتی ہوں اور مچھلی کا بھی۔‘

میں حیران تھا کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ پرندوں کا جال لگانا ایک سائنس کے ساتھ بڑی جفاکشی والا کام ہے، جو آپ کو روز کرنا پڑتا ہے۔ شام کو جب آپ گُھٹنوں گُھٹنوں پانی میں جال لگانے جاتے ہیں تو، پہلے آسمان کو دیکھتے ہیں۔ پھر ہوا کا رُخ معلوم کرنا پڑتا ہے کہ اس وقت ہوا کس طرف سے چل رہی ہے۔ کیا یہ چلتی رہے گی یا بند ہو جائے گی؟ یا رات کے کسی پہر میں اپنا رُخ تبدیل کرے گی؟ یہاں انتہائی تیز مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر آپ چُوک گئے تو جال میں ایک پرندہ بھی نہیں پھنسے گا اور یہ ساری معلومات ذہن میں اکٹھی کرکے آپ لمحوں میں نتیجہ نکالتے ہیں، پھر اُس کے حساب سے لکڑیاں لگانا شروع کرتے ہیں۔ گیلی مٹی میں لکڑی جمانے کے لیے اچھی خاصی طاقت چاہیے ہوتی ہے۔

پھر پرندوں کے پکڑے جانے کا دارومدار اس بات پر بھی منحصر ہے کہ آپ کے پاس جو جال ہے جسے آپ لگانے آئے ہیں وہ کتنا بڑا ہے۔ اگر جال 300 فٹ تک کا ہے جو چھوٹے میں چھوٹا ہوتا ہے، تو اُس کے لیے آپ کو 6 لکڑیاں گاڑنی پڑیں گی۔ یہ جال بڑے سے بڑا 200 لکڑیوں پر پھیلا ہوا ہوسکتا ہے۔ پہلے طے کیے گئے طرف کے حساب سے لکڑی لگا کر، لکڑی پر ترتیب سے جال لگانا پڑتا ہے پھر جب جال لگ جائے تو، کہیں نزدیک میں رہنا پڑتا ہے کہ رات کو سِیار آکر جال کو پھاڑ نہ دے یا پرندے نکال کر نہ لے جائے۔

صبح کو جیسے سفیدی پھیلتی ہے تو آپ کو پھنسے ہوئے پرندوں کو جال سے نکالنے کے بعد، وہ پورا جال اُتار کر سمیٹنا پڑتا ہے اور لکڑیوں کو نکالنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ بھی ہوتا ہے کہ رات بھر ایک پرندہ بھی نہیں لگتا اور آپ کی جانب سے کی ہوئی ساری محنت اور مشاہدہ اکارت ہوجاتا ہے، وہ بھی سردیوں کے موسم میں جب فجر کے وقت کھلے آسمان کے نیچے بہت ٹھنڈ ہوتی ہے، اور پچھلے پہر کا پانی جو جھیل میں کھڑا رہتا ہے وہ بڑا ٹھنڈا ہوتا ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ، چاول کی سُرخ روٹی ایسے مفت میں تو نہیں پکتی۔ بہت کچھ کرنا پڑتا ہے پیٹ کے دوزخ کی آگ بجھانے کے لیے۔

نریڑی جھیل اور اداسیوں کی انجمن—تصویر ابوبکر شیخ
نریڑی جھیل اور اداسیوں کی انجمن—تصویر ابوبکر شیخ

بدین کی جھیلوں اور سمندر پر 2004ء سے پہلے ٹھیکیداری نظام تھا۔جہاں ماہی گیر کے لیے لازمی تھا کہ وہ جو بھی مچھلی پکڑے، جھینگے پکڑے اور جہاں سے بھی پکڑے وہ ماہی گیر اپنی مرضی سے فروخت نہیں کرسکتا۔ اسے یہ سارا کیچ، ٹھیکیدار کو ہی بیچ کردینا ہے۔ اب یہ ٹھیکیدار کی مرضی پر ہے کہ وہ کتنے دام اسے دیتا ہے۔ یہ ماہی گیروں کیساتھ ایک بڑی نا انصافی کا زمانہ تھا۔

اس ٹھیکیداری نظام کو ختم کرنے کے لیے پاکستان فشر فوک فورم میدان میں آئی اور ٹھیکیداری نظام کے خلاف بڑی جدوجہد کی۔ اس جدوجہد میں مائی ہاجراں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اُس زمانے میں جو ٹھیکیدار نریڑی پر ٹھیکیداری کرتا تھا، مائی ہاجو نے کمیونٹی کی مدد سے اس کے خلاف حیدرآباد کی ہائی کورٹ میں اُس پر کیس داخل کیا۔

یہ کیس 2 برس تک چلتا رہا اور جب فیصلہ آیا تو یہ کیس مائی ہاجراں نے جیت لیا۔ (البتہ ضلع بدین سے حکومت نے 31 دسمبر 2004ء میں ٹھیکیداری نظام ختم کرنے کا اعلان کیا تھا)۔

’جب آپ نے کورٹ سے کیس جیتا تو کیسا لگا؟‘

’اچھا لگا۔ مجھے لگا جیسے میں نے اپنے گھر کو اس ٹھیکیدار کے چنگل سے چُھڑا لیا تھا اور یہ صحیح بات بھی تھی۔ اب ہم آزاد تھے۔ جہاں چاہے شکار کریں اور جہاں اچھی قیمت ملے وہاں بیچ دیں۔ مگر ہمارے نصیب شاید اچھے نہیں ہیں۔ 1999ء والے طوفان سے پہلے، جب نریڑی کو کسی کی نظر نہیں لگی تھی اور وہ جوان تھی، تب سب خوش تھے۔ اتنی بڑی جھیل تھی۔ پانی ہی پانی۔۔۔ مچھلی ہی مچھلی۔۔۔ پرندے ہی پرندے۔۔۔ گھاس ہی گھاس۔۔۔ مگر کسی کی نظر لگ گئی۔

’طوفان نے جیسے اس جھیل کو آگ لگادی تھی۔ جہاں جنوب کی طرف پانی ہوتا تھا وہاں مٹی بھرگئی۔ پھوس اور سرکنڈوں کا جیسے نام و نشان گُم ہوگیا۔ جیسے جیسے سال گزرتے جا رہے ہیں، نریڑی مرتی جارہی ہے۔

’پہلے مچھیروں کے ناجانے کتنے خاندان بستے تھے ان کناروں پر۔۔۔ اب 10 سے 12 سے زیادہ نہیں ہیں۔ ہر کوئی کسی اور جھیل یا پانی پر جانے کا سوچ رہا ہے۔ ہم نے سوچا تھا، ٹھیکیداری ختم ہوگی تو آزاد ہوجائیں گے مگر خدا کو کچھ اور منظور تھا۔۔‘

’1999ء والے طوفان سے پہلے، جب نریڑی کو کسی کی نظر نہیں لگی تھی اور وہ جوان تھی، تب سب خوش تھے‘—تصویر ابوبکر شیخ
’1999ء والے طوفان سے پہلے، جب نریڑی کو کسی کی نظر نہیں لگی تھی اور وہ جوان تھی، تب سب خوش تھے‘—تصویر ابوبکر شیخ

‘طوفان نے جیسے اس جھیل کو آگ لگادی تھی۔ جہاں جنوب کی طرف پانی ہوتا تھا وہاں مٹی بھرگئی’—تصویر ابوبکر شیخ
‘طوفان نے جیسے اس جھیل کو آگ لگادی تھی۔ جہاں جنوب کی طرف پانی ہوتا تھا وہاں مٹی بھرگئی’—تصویر ابوبکر شیخ

مائی ہاجراں کے الفاظ میں بہت ساری کیفیتیں گڈمڈ ہوگئیں مگر چلے جانے کا، چھن جانے کا احساس، اس کے ادا کیے گئے لفظوں میں سے اپنی آبدیدہ آنکھوں سے پلکیں جھپکاتا نظر آتا۔

میں نے جب یہاں حکومت کے حوالے سے دی گئی سہولیات کے متعلق پوچھا، تو مائی ہاجراں نے ایک قہقہہ لگایا۔ ’اڑے بابا تم بھی بادشاہ آدمی ہو۔ یہاں گورنمنٹ کی کوئی ایک اینٹ بھی نظر آتی ہے تم کو؟ اگر یہاں بچے کے تولد ہونے کا مسئلہ ہو تو یہاں سے 25 میل دُور بدین جانا پڑے گا۔ وہ بھی اگر کسی کا موٹرسائیکل ہے تو اُس پر۔ گاڑی یہاں نزدیک میں ملے گی نہیں۔ بھلے بچے والی عورت مرجائے یا بچہ مرجائے۔ اس لیے میں کوشش کرتی ہوں کہ بچہ، گھر پر ہی پیدا ہو۔ میں دائی ہوں۔ اگر کوئی ہلکی بیماری ہوجائے تو میں بوٹیوں کا سفوف بنا کر دیتی ہوں۔ میرا مالک رحم کرتا ہے۔ سفوف اثر کرجاتا ہے۔‘

’جب یہاں کے حالات اچھے نہیں ہیں تو نقل مکانی کیوں نہیں کرتیں آپ؟‘

’اب یہ جگہ چھوڑ کر اس عمر میں کہاں جائیں گے؟ اس آسمان کے نیچے آنکھیں کھولی ہیں۔ اس کے نیچے ہی بند ہوں تو اچھا ہے۔ امّاں ابّا بھی یہیں پیدا ہوئے، ان کناروں پر آخری سانسیں لیں۔ اب ان کناروں کو چھوڑ کر جانے کا جی نہیں چاہتا۔ بس اچھی گزر رہی ہے۔ باقی دن بچے ہی کتنے ہیں۔ گزر جائیں گے۔‘

یہ میری مائی ہاجراں سے دوسری اور آخری ملاقات تھی۔ اس ملاقات میں وہ کسی کسی وقت کھانستی۔ میں نے جب بیماری کا پوچھا تو اُس نے بتادیا کہ، پھیپھڑوں کی بیماری ہے۔ پھر وہ دوائیں دکھائیں جو اُس کو سول ہسپتال سے ٹی بی (Tuberculosis) کے کورس کے لیے ملی تھیں۔

یہاں گرمی کے دنوں میں درجہ 40 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے اور یہ دوائیں اِس گرمی میں، جھونپڑی میں پولیتھین بیگ میں لٹک رہی تھیں۔ جس کے چھپرے سے سورج کی الٹراوائلٹ شعاعیں سارا دن جھانکتی رہتی ہیں۔ صبح کو خالی پیٹ یہ 4 ٹیبلیٹ لینا ایک عذاب سے یقیناً کم نہیں ہے۔ جن کے کھانے سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں تھا۔ پھر یہاں نہ ہی ایسی خوراک تھی جو اس بیماری کے مریض کو ملنی چاہیے تھی۔ مگر ’ٹی بی ڈاٹ‘ پروگرام یہاں کامیابی سے چل رہا ہے۔ کیا کیا جاسکتا ہے؟

جھیل کے قریب مائی ہاجو اور دیگر مچھیروں کے گھر—تصویر ابوبکر شیخ
جھیل کے قریب مائی ہاجو اور دیگر مچھیروں کے گھر—تصویر ابوبکر شیخ

مجھے پتہ تھا کہ مائی ہاجراں کے پاس کوئی اتنا زیادہ وقت نہیں ہے۔کبھی کبھی ہم کو اپنی بے بسی پر غصہ بھی آتا ہے۔ جیسا مجھے اپنی بے بسی پر آ رہا تھا کہ اس کو بچانے کے لیے میں کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اُس کی ایک بیٹی کی شادی شہر میں کسی مچھوارے سے ہوئی تھی۔

میں نے مائی کو وہاں اپنی بیٹی کے گھر جانے کے لیے کہا۔ ایک تو وہاں ہسپتال نزدیک تھا اور کبھی کبھار فروٹ وغیرہ بھی آسانی سے دستیاب تھا۔ مگر وہ نہیں مانی۔

’اب مرنا جینا انسان کے بس میں تو ہوتا نہیں۔ مرنا یہاں بھی مرنا وہاں بھی۔ اس سے اچھا ہے کہ، جنازہ ان کناروں سے اُٹھے۔ جہاں سے بابا، امّاں، اور میاں کا اُٹھا۔ آپ سچی پوچھیں مجھے موت کا ڈر نہیں ہے۔ اب ایک برتن بنا ہے تو اُسے ٹوٹنا تو ہے نا۔ کہاں بھاگتے پھریں گے۔ بس دُکھ فقط یہ ہے کہ جس جھیل کو ہنستے کھیلتے دیکھا، آباد دیکھا، وہ بھی مر رہی ہے۔ ویرانی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ جن کناروں پر میلے تھے وہاں اب ویرانی ہے۔ تپتی دوپہروں میں جب یہ سوچتی ہوں تو بس جینے کو جی نہیں چاہتا۔ اب مالک بلالے تو اچھا ہے۔‘

اس کے بعد میں نریڑی گیا مگر مائی ہاجراں سے مل نہیں سکا کہ میں ملنا نہیں چاہتا تھا۔ کیونکہ ہڈیوں کے پنجرے کو دیکھنے کی مجھ میں سکت ہی نہیں تھی۔

مائی ہاجو کی وہ آخری مسکراہٹ جو تصویر میں قید کی گئی—تصویر ابوبکر شیخ
مائی ہاجو کی وہ آخری مسکراہٹ جو تصویر میں قید کی گئی—تصویر ابوبکر شیخ

وہ 70 برس کی عمر میں 2012ء میں انتقال کرگئیں۔ اُس کا جنازہ اُنہی کناروں سے اُٹھا۔ جن کناروں پر وہ دوڑ دوڑ کر بڑی ہوئی تھی۔ جوان ہوئی تھی۔ شادی کی تھی۔ بچوں کو جنم دیا تھا۔ اُس کی آنکھوں نے نہ جانے اس جھیل کے خوبصورتی کے کروڑوں منظر دیکھے ہوں گے۔

اُس شام سمے اس نے کہا تھا، ’میرے بابا، میری ماں اور میرے میاں بہت خوش نصیب تھے کہ وہ نریڑی کی خوبصورتی میں یہ جہان چھوڑ گئے۔ میں اتنی خوش نصیب نہیں ہوں کہ بھرے میلے میں چلی جاتی۔ میں تو ایسے وقت میں یہ جہان چھوڑوں گی جب سب کچھ برباد ہوچکا ہے۔‘ یہ کہتے ہوئے اُس کی نور کھوتی ہوئی آنکھوں میں نمکین پانی بھر آیا تھا۔ آج جب 9 برس کے بعد یہ سب تحریر کر رہا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ کل کی بات ہے۔

بس ایک اچھی بات رہ گئی ہے اس کلجگ میں، کہ اچھے اور مثبت عمل کو کوئی بھی وقت کے درخت پر الزامات کی رسی سے پھانسی پر نہیں لٹکا سکتا۔ اب بھی جب کبھی جاڑے کی راتوں میں الاؤ جلتا ہے۔ مچھیرے کچہری کرتے ہیں تو مائی ہاجو کو، اچھے لفظوں میں یاد کیا جاتا ہے۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔