ہواوے پر امریکی پابندیوں میں آئندہ چند ہفتوں کے دوران کمی آنے کا امکان ہے تاہم کمپنی کے بانی کا کہنا ہے کہ حالات نے ہمیں اس قابل بنادیا ہے کہ ہمیں اب اپنی مصنوعات کے لیے امریکا پر انحصار کی ضرورت نہیں رہے گی۔

یاہو فنانس سے انٹرویو میں ہواوے کے بانی رین زینگ فائی نے امریکی حکومت کی پابندیوں سے نمٹنے کے لیے کمپنی کے منصوبوں کے ساتھ دیگر چیزوں پر بات کی۔

انہوں نے بتایا کہ امریکا کی جانب سے جب بلیک لسٹ کیا گیا تو ہواوے اس کے لیے مکمل تیار نہیں تھی اور پابندی کے بعد پہلے 2 ہفتوں میں اسمارٹ فونز کی فروخت میں 40 فیصد کمی آئی، جس کی وجہ آپریٹنگ سسٹم کے حوالے سے خدشات تھے۔

تاہم ان کہنا تھا 'اب کمپنی اپنی اہم پراڈکٹس کے لیے امریکی انحصار ختم کرنے کے قابل ہوچکی ہے'۔

ان کے بقول ہواوے کو بلیک لسٹ کرنا امریکا کی جانب سے کمپنی کو جدید ٹیکنالوجی سے دور رکھنے کی کوشش تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ کمپنی امریکا کے لیے سیکیورٹی خطرہ نہیں 'ہمارا امریکا میں کوئی نیٹ ور نہیں اور نہ ہی ہم اپنی 5 جی مصنوعات وہاں فروخت کرنے کی خواہ رکھتے ہیں، ٹرمپ کے پاس ہمارے خلاف کچھ نہیں'۔

انہوں نے کہا کہ ہواوے پر پابندی سے امریکا کو زیادہ نقصان ہوگا خصوصاً فائیو جی کنکشنز کے حوالے سے 'اگر ان کے پاس سپر کمپیوٹر اور سپر لارچ کیپیسٹی کنکشنز ہیں، تو بھی امریکا کو سپر فاسٹ کنکشنز نہ ہونے پر نقصان ہوگا'۔

ان کا کہنا تھا 'ہواوے کو بند کرنا امریکا کے پیچھے رہنے کا آغاز ہے'۔

انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ امریکی قانونی نظام ان مسائل کا حل نکال لے گا۔

اس سے کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ امریکی پابندیوں کے نتیجے میں کمپنی کو 30 ارب ڈالرز کا نقصان ہوسکتا ہے، مگر ہواوے آئندہ چند برسوں میں پھر ابھرے گی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ہواوے کو رواں سال مئی میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بلیک لسٹ کیا تھا جس کے لیے کمپنی کے چینی حکومت سے مبینہ روابط کو بنیاد بنایا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں