کورونا وائرس کی عالمگیر وبا نے ہر ایک کو مختلف طریقوں سے متاثر کر رکھا ہے۔ کہیں کوئی مالی مسائل سے پریشان ہے تو کوئی ذہنی انتشار کا شکار۔ پاکستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں اور یہاں بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر ایک حصے کو کورونا سے بچاؤ کی خاطر کیے گئے لاک ڈاؤن نے کئی حوالوں سے ستایا ہوا ہے۔

گوکہ مریضوں کی تعداد اور اموات کے تقابل میں ہمارے ملک کے حالات قدرے بہتر ہیں لیکن اس وبا کے نتیجے میں نافذ لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشرتی سطح پر کئی دیگر پیچیدگیاں اور مشکلات پیدا ہوگئی ہیں، جن میں بیروزگاری سرِفہرست ہے، اور اس بات سے کون واقف نہیں کہ یہ بیروزگاری اپنے ساتھ مختلف سماجی مسائل اور برائیوں کو جنم دیتی ہے۔

ہمارے ہاں تو بیروزگاری کا جن پہلے ہی دندناتا پھرتا تھا جو لاک ڈاؤن کے بعد بالکل ہی بے قابو ہوچکا ہے۔ کاروباری مراکز بند ہیں، دکانوں کے شٹر گرے ہوئے ہیں، سڑکیں اور مارکیٹیں ویران ہیں، تفریحی مقامات، باغات، سینما گھر اور تھیٹر کے دروازوں پر بھی تالے لگے ہوئے ہیں۔

لاک ڈاؤن نے پرفارمنگ آرٹس سے منسلک فنکار، اداکار، صداکار اور اس شعبے سے وابستہ معاونین (میک اپ مین، پریس مین، ٹی بوائے وغیرہ) یا سپورٹ اسٹاف کے طور پر کام کرنے والے افراد کی زندگیوں کو مزید متاثر کردیا ہے کہ جن کی زندگی تو پہلے بھی کوئی بہت اچھی نہیں گزر رہی تھی۔

فلم اور تھیٹر سے وابستہ بڑے فنکار تو مالی طور پر مستحکم ہیں مگر انہی شعبوں سے جڑے نسبتاً کم درجے کے آرٹسٹوں اور دیگر اسٹاف کی مالی حالت اس بندش کے باعث دگرگوں ہوتی جارہی ہے۔ اسٹیج پر یا پردے کے پیچھے خدمات انجام دینے والے یہ افراد ہفتہ وار یا روزانہ کی بنیاد پر آمدنی حاصل کرتے ہیں جو اب کئی روز سے بند ہے اور نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے۔

روزانہ کمانے والے اب فاقوں پر مجبور ہیں—تصویر بشکریہ تنویر شہزاد
روزانہ کمانے والے اب فاقوں پر مجبور ہیں—تصویر بشکریہ تنویر شہزاد

راولپنڈی کے ایک تھیٹر کا مرکزی ہال—تنویر شہزاد
راولپنڈی کے ایک تھیٹر کا مرکزی ہال—تنویر شہزاد

تماشائیوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والے ان فنکاروں کے اپنے چہرے اداسی اور ناامیدی کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں، آرٹ کے شعبے کے لیے قائم سرکاری ادارے روایتی انداز میں امداد فراہم کرنے کے لیے فنکاروں سے درخواستیں تو وصول کررہے ہیں لیکن یہ امداد کب دی جائے گی؟ کچھ پتا نہیں۔

دوسری طرف حالات ایمرجنسی کے ہیں اور فوری کارروائی کے متقاضی ہیں۔

لاہور آرٹس کونسل کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر اطہر علی خان نے مالی مسائل کے شکار فنکاروں کی مالی معاونت کرنے کا عزم تو ظاہر کیا اور بتایا کہ امداد کے مستحق فنکاروں سے درخواستیں لی گئی ہیں لیکن جب ان سے استفسار کیا گیا کہ یہ امداد کب ضرورت مندوں تک پہنچ سکے گی تو انہوں نے بھی مدعا صوبائی حکومت کے محکمہ خزانے پر ڈالتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی ضابطے کی کارروائی مکمل ہوجائے گی تو 2، 4 دنو‏ں میں امدادی رقوم کی تقسیم کا عمل شروع کردیا جائے گا، اب یہ 2، 4 دن کب سے شروع ہوں گے؟ کچھ پتا نہیں۔

گزشتہ 4 ہفتے سے جاری لاک ڈاؤن کے دوران جہاں سرکاری امدادی اسکیمیں سست روی کا شکار ہیں اور حکام حالات کی سنگینی کا احساس نہیں کررہے وہیں فنکار ہی فنکاروں کے دکھ درد میں شریک دکھائی دیتے ہیں۔ لاہور کے اسٹیج آرٹسٹ عابد علی نے، لوک رس کے نام سے ہم خیال احباب کا ایک گروپ بنا رکھا ہے جو اس کڑے وقت میں اپنے ہم پیشہ افراد کی مدد کے لیے کوشاں ہے۔

عابد علی نے بتایا کہ وہ پچھلے 3 ہفتوں سے اب تک ڈھائی سو کے لگ بھگ بیروزگار آرٹسٹوں اور معاونین کو نقد کی صورت میں اور قریب 70 گھرانوں کو راشن کی شکل میں امداد فراہم کرچکے ہیں۔ اس کارِ خیر میں انہیں مشہور اسٹیج اور ٹی وی آرٹسٹ قیصر پیا اور اسٹیج ڈراما پروڈیوسر سخی سرور بٹ نے مالی معاونت فراہم کی جبکہ چند مخیر حضرات نے راشن میں شامل اشیا دیں۔

عابد علی کا کہنا تھا کہ وہ اس کوشش میں ہیں کہ زیادہ سے زیادہ متاثرہ خاندانوں تک یہ سلسلہ بڑھایا جائے اور خود فنکار برادری کے بہنوں، بھائیوں تک پہنچ پائیں۔ اب چونکہ فنکار برادری اپنی حساسیت کی بنا پر دوہری مشکل میں ہے اس لیے انہوں نے اپنی سفید پوشی کا بھرم بنایا ہوا ہوتا ہے، وہ نہ تو کُھل کر اپنی مشکل بتا پاتے ہیں اور نہ سامنے آنا گوارہ کرتے ہیں۔

راولپنڈی کے ایک تھیٹر میں فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں—عابد فاروق
راولپنڈی کے ایک تھیٹر میں فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں—عابد فاروق

اسٹیج اور ٹی وی کے منجھے ہوئے کامیڈین واجد خان نے مہلک وبا کے باعث بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کی وبا تو اب آئی ہے اور خدا نے چاہا تو جلد ہی اس سے چھٹکارا بھی مل جائے گا مگر چند بڑے ناموں کو چھوڑ کر باقی آرٹسٹوں کے مسائل تو وہی پرانے ہیں۔ نامناسب تاخیر کے ساتھ انہیں اس قدر کم معاوضے دیے جاتے ہیں کہ جو روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی ناکافی ہوتے ہیں۔ اب بھلا ایسے میں بُرے وقت کے لیے کوئی کیا بچا کر رکھے؟

واجد خان کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں لوگ فنکاروں کے کام پر داد تو خوب دیتے ہیں، ان کے ساتھ سیلفیاں بھی بنواتے ہیں مگر انسان کے فطری وقار کا بھی مستحق نہیں سمجھتے اور انہیں اکثر بھانڈ، میراثی کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اب چاہے اس کے پیچھے کارفرما محرکات معاشی ہوں یا معاشرتی مگر یہ ایک کڑوی حقیقت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آج تک فنکاروں کی بہبود کے لیے کوئی نمائندہ تنظیم نہیں بن سکی اور اس کا بڑا سبب سرمایہ کار ہیں، جنہیں ہم پروڈیوسر پکارتے ہیں۔ چونکہ ان کا مقصد فن یا فنکار کی ترویج نہیں بلکہ کچھ اور ہوتا ہے۔ اس آفت کے دور میں اگر کوئی نمائندہ ایسوسی ایشن موجود ہوتی تو آج ہمارے فنکار یوں بے آسرا نہ ہوتے۔

مختلف چینلوں پر کامیڈی شوز کے ذریعے شہرت حاصل کرنے والے عابد فاروق عرف پروفیسر باغی نے کہا کہ حکومتی اداروں کو مشکل حالات کے شکار آرٹسٹوں اور سپورٹ اسٹاف کی مدد کے لیے آگے آنا چاہیے۔ اس وبائی صورتحال میں اگر حکومت اپنے فنکاروں کا ساتھ نہیں دے گی تو کون دے گا؟ ریاست میں بسنے والے ہر فرد کی ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے اور فنکار تو زیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج آپ سب کو تفریح فراہم کرنے والے خود فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے ہیں اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کسی تک پہنچ کر اپنا حال بھی نہیں بتا سکتے۔

دائیں سے امان اللہ سلیم البیلا اور عابد فاروق عرف پروفیسر باغی
دائیں سے امان اللہ سلیم البیلا اور عابد فاروق عرف پروفیسر باغی

گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے اسٹیج ڈراموں میں چھوٹے موٹے کردار نبھا کر اپنے کنبے کی کفالت کرنے والے محبوب مستانہ نے رندھی ہوئی آواز میں کہا ’باؤ جی ہم بھی سب کے ساتھ ہی ہیں، سنا ہے کورونا امیر غریب کا فرق نہیں دیکھتا لیکن ہم تو 2 طرح کے کورونا سے لڑرہے ہیں، وبا والے کورونے سے تو ابھی واسطہ نہیں پڑا، اللہ کرے کہ پڑے بھی نہ مگر ہم تو بھوک کے کورونا سے لڑ رہے ہیں‘۔

’آج ایک مہینے سے ایک ہفتہ اوپر ہوگیا گھر بیٹھے ہیں، پروڈیوسر کو کال کی تھی ایڈوانس کے لیے۔ بڑی منت سماجت کی تو مانا اور کہنے لگا کہ آکر لے جاؤ مگر پھر اگلی پریشانی کھڑی ہوگئی کہ جائیں کیسے اور لائیں کیسے؟ نہ رکشہ، نہ ٹیکسی، نہ میٹرو، نہ ویگن۔ پڑوسی سے بات کی تو اس نے مہربانی کی اور اپنی موٹر سائیکل دے دی اور کہا کہ جاؤ مگر جلدی لوٹ آنا۔ سڑک پر نکلا ہی تھا کہ ناکے پر پولیس نے روک لیا، بے عزتی کی اور واپس بھیج دیا۔ اب چونکہ پیٹ تو بھرنا تھا اس لیے پھر محلے کے دکاندار کی منت سماجت کی، بھلا آدمی ہے ترس کھا کر 2، 3 دن کا راشن ادھار دے دیا لیکن لگتا نہیں کے دوبارہ دے۔ اللہ کا ہی آسرا ہے اب تو، دیکھیں کب یہ بلا ٹلے اور ہم کام دھندے پر نکلیں، باؤ جی ہاتھ پھیلانا کسے اچھا لگتا ہے، خدا سب کو اس ذلت سے بچائے‘، مستانہ نے دکھی انداز میں اپنی بات کو ختم کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (5) بند ہیں

ثقلین جعفری Apr 25, 2020 09:11pm
بہت عمدہ اور جامع اور ایسے بے بس لوگوں کی نمائندگی کے لیے کافی معاون ثابت ہوگی
M Mubashar Riaz Apr 25, 2020 11:11pm
مختصر مگر سیر حاصل گفتگو; لکھاری کی گہری نظر رکھنے کا عندیہ ہے۔ موجودہ حالات میں بہت سے افراد نامعلوم حالات میں وسائل سے دور ہیں۔ فنکار بھی ایسا ہی ایک گروہ ہیں۔ لکھاری کی تحریر کابل ستائش ہے۔ مشاء اللہ
M Mubashar Riaz Apr 25, 2020 11:12pm
مختصر مگر سیر حاصل گفتگو; لکھاری کی گہری نظر رکھنے کا عندیہ ہے۔ موجودہ حالات میں بہت سے افراد نامعلوم حالات میں وسائل سے دور ہیں۔ فنکار بھی ایسا ہی ایک گروہ ہیں۔ لکھاری کی تحریر کابل ستائش ہے۔ مشاء اللہ
afzal abbas Apr 26, 2020 12:49am
boht aala.
afzal abbas Apr 26, 2020 12:51am
shukary Dawn or khalid sb apka.