محمد بن تغلق کے سندھ میں آخری ایام!

محمد بن تغلق کے سندھ میں آخری ایام!

ابوبکر شیخ

ابنِ آدم فطرت کے پالنے میں جھول کر بڑے ہوتے ہیں۔ مگر انسان اپنے انگھوٹھوں کی پوروں کے نشانات کی ہی طرح ایک دوسرے سے منفرد ہیں۔

ہم سب جو فطرت کے بچے ٹھہرے، اگر ہمارا کوئی یکساں پہلو ہے تو یہ ہے کہ ہم سب کا چہرہ ہے اور وہ آنکھوں، ناک اور منہ سے مکمل ہوتا ہے۔ مگر ہماری کوئی چیز دوسرے سے نہیں ملتی۔ جتنے وجود ہیں اتنی آنکھلیں اور جتنی آنکھیں ہیں وہ ساری خواب دیکھتی ہیں۔ ہاں البتہ وہ ایک جیسے خواب نہیں دیکھتیں۔

فطرت کے بیٹوں کے دکھ اور عیاریاں سمجھنے کے لیے ہم ان کو طبقات میں بانٹ دیتے ہیں کہ ہمارے ذہن نے اپنے ارتقائی عمل میں اب تک اتنی ہی ترقی کی ہے۔

چونکہ انسان اب تک معدومیت کے شر سے پاک ہے اس لیے ہم یہ امید کرسکتے ہیں کہ آگے چل کر دو پیروں پر چلنے والے یہ جاندار اپنے اندر مثبت تبدیلیاں لائیں گے کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ ہماری زندگی کا سفر مثبت راستوں کے لیے ہی ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ ہم کچھ دُور ہی نکل آئے۔ ہمیں واپس لوٹنا پڑے گا۔ زیادہ نہیں بس 700 برس پیچھے لوٹتے ہیں، دراصل ماضی کے یہ سنگ میل ہمارے قافلے کے ایسے پڑاؤ تھے جن کے مثبت یا منفی جو بھی اثرات تھے انہی کی وجہ سے ہمارے موجودہ معاشرے کی تار و پود ہوئی ہے۔

آسان فہم کے لیے تغلقوں کی حکومت ترک اور ہندی نسل کی حکومت کہی جاسکتی ہے۔ دراصل ترک لفظ ’قتلغ‘ کو توڑ مروڑ کر لفظ تغلق بنایا گیا ہے۔ ملک سلطان، غیاث الدین بلبن (غوری سلطنت 1266ء) کا ایک ترک غلام تھا جس کا بیٹا غیاث الدین تغلق تھا۔

ملک تغلق نے ’بھٹ‘ خاندان کی ایک عورت سے شادی کی تھی، انہی میں سے غیاث الدین پیدا ہوئے۔ علاؤالدین خلجی نے 1316ء میں یہ جہان چھوڑا یا اس کے محبوب ملک کافور نے چھڑوایا یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن اس کے بعد اس کا بیٹا شہاب الدین تخت پر بیٹھا۔

کچھ عرصے بعد اس کے بھائی قطب الدین مبارک شاہ نے اپنے بھائی کی آنکھوں میں سلائیاں پھروا دیں۔

جس طرح علاؤالدین خلجی ملک کافور کی محبت میں دیوانہ ہوگیا تھا اور اس دیوانگی نے ایک دن اس کی رگوں میں زہر بھر دیا اور زندگی کی ڈور ٹوٹ گئی تھی، کچھ ویسا ہی آگے چل کر ہوا۔

تاریخ نے خود کو پوری شدت کے ساتھ دہرایا۔ قطب الدین مبارک شاہ، ’خسرو خان‘ کا دیوانہ ہوا۔ خسرو خان کی بغاوتیں بھی مبارک شاہ کو نظر نہیں آتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ دیوانگی تب تک اچھی ہوتی ہے جب تک ہوش کی تنابیں آپ کے ہاتھ میں ہوں۔ مگر جب دیوانگی میں یہ کیفیت ہو کہ ہوش کی رسیاں آپ کے ہاتھ سے چھوٹ جائیں تو آپ کہیں کے نہیں رہتے۔

تاریخ کے صفحات پر سانس لیتے الفاظ آپ کو بتاتے ہیں کہ ’مبارک شاہ اکثر اوقات عورتوں کی طرح زیور پہن لیتا تھا اور اسی حلیے میں مجمعے میں آکر لوگوں سے بات چیت کرتا تھا۔ اسے بہت سمجھایا گیا کہ ’خسرو خان آپ کا بھلا کبھی نہیں چاہے گا۔ وہ کئی بار آپ سے بغاوتیں کرتے ہوئے بھی پکڑا گیا ہے‘۔

مگر ایسا کیا تھا، جس نے اس کے نظر کی حد خسرو خان تک مقرر کردی تھی۔ تاریخ فرشتہ کے مصنف محمد قاسم فرشتہ لکھتے ہیں کہ 'خسرو خان عورتوں کا لباس پہن کر بادشاہ کا دل بہلاتا تھا۔ جس رات یعنی 24 مارچ 1321ء کو خسرو نے اپنے عاشق قطب الدین مبارک شاہ کا قتل کیا تھا اس رات بھی وہ بادشاہ کے ساتھ خواب گاہ میں تھا'۔

دوسرے دن خسرو خان تخت پر بیٹھا اور 'سلطان ناصرالدین' کا لقب اختیار کیا۔ کچھ برسوں کی حکومت کے بعد دیپالپور کے گورنر ’غازی ملک‘ نے خسرو خان کو قتل کردیا اور اگلے دن یعنی 26 اگست 1321ء بروز بدھ غازی ملک کی خدمت میں معززین حاضر ہوئے، کامیابی کی مبارک بادیں دیں اور شہر کے دروازوں کی چابیاں اس کے حوالے کردیں۔ یوں 'تغلق سلطنت' کی بنیاد پڑی اور غازی ملک 'سلطان غیاث الدین تغلق' کے اعزاز کے ساتھ تخت پر بیٹھا۔

وہ ایک موزون بادشاہ تھا۔ اس کے نصیبوں میں تخت و تاج کچھ زیادہ وقت تک نہیں لکھا تھا۔ بس ڈھائی برس تک وہ تخت پر براجمان رہا۔ فروری 1325ء میں وہ ڈھاکہ سے واپس آرہا تھا۔ اس دن کے بارے میں ’واقعات دارالحکومت دہلی‘ کے مصنف کچھ یوں لکھتے ہیں کہ، 'بادشاہ جب ڈھاکے سے واپس آ رہا تھا یا یہ کہو کہ اُس کی قضا کھینچ کر لا رہی تھی۔ دہلی سے پہلے افغان پور میں اس کے بیٹے جونا خان (جس کو اس کے باپ غازی خان نے الغ خان کا لقب دیا تھا) نے 3 دنوں میں لکڑی کا ایک محل تعمیر کروایا۔ وہ چاہتا تھا کہ بادشاہ سلامت جیسے آئے تو اس لکڑی کے محل میں پیر دھریں۔ اس کی واپسی کی خوشی میں شاندار دعوت اور ہاتھیوں کی نمائش وغیرہ پر مشتمل جشن کی جو تیاریاں کی گئی تھیں، بادشاہ ان سے محظوظ ہو۔ ایسا ہی ہوا۔ شاندار دعوت کے بعد جب ہاتھیوں کا شغل دکھانے کے لیے ہاتھی اوپر اسٹیج پر آئے تو یہ 3 دن میں بنایا گیا محل زمین بوس ہوگیا جس میں غیاث الدین تغلق دب کر مرگیا'۔

مولانا ابو ظفر ندوی لکھتے ہیں کہ 'ضیاء برنی، بدایونی، ابوالفضل، حاجی محمد قندہاری خاموش رہے، مگر صدر جہاں گجراتی نے اپنی تاریخ میں، اس واقعے کو ’طلسم‘ کے لفظ سے تعبیر کیا۔ یعنی یہ قصر طلسمی صنعت سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کی طلسم کشائی بہتر طریقے سے ضیاء برنی ہی کر سکتا تھا۔ مگر فیروز شاہ تغلق کا پروردہ تھا اس لیے سچی بات نہ لکھی۔ بہرحال ’ابنِ بطوطہ‘ جو برنی کے ہم عصر ہیں وہ لکھتے ہیں کہ، اسے ایک سازش کے تحت قتل کیا گیا تھا'۔

باپ کی وفات کے چوتھے دن کے بعد 1325ء میں محمد بن تغلق تخت پر بیٹھا۔ تاریخ فرشتہ کے مصنف محمد قاسم فرشتہ تحریر کرتے ہیں کہ 'مؤرخین محمد بن تغلق کو 'عجائب المخلوقات' کے نام سے یاد کرتے ہیں اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ اس کے حالاتِ زندگی پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بیک وقت نیکی اور بدی دونوں صفتوں کا مالک تھا۔ ایک طرف اس کی خواہش تھی کہ بادشاہت کے ساتھ مرتبہ نبوت بھی اسے مل جائے۔ دوسری طرف اس کی یہ حالت تھی کہ اسلام کے قوانین اور احکامات پر پوری طرح عمل کرتا۔ فسق و فجور سے ہمیشہ الگ رہتا۔ حرام چیزوں کی طرف کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ لیکن طرفہ یہ کہ بندگانِ خدا کا ناحق خون کرنے میں اور ان پر طرح طرح کے ظلم توڑنے میں کوئی بُرائی نظر نہیں آتی تھی۔ طبیعت کی دو رنگی کا یہ عالم تھا کہ جہاں بخشش و کرم میں حاتم اور معن سے بھی زیادہ بڑھ جاتا وہیں ظلم و ستم میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا اور کوئی ہفتہ ایسا نہیں جاتا کہ جس میں مشائخ و سادات، صوفی، قلندر، اہلِ قلم اور سپاہی اس کی سیاسی حکمتِ عملی کا شکار نہ ہوتے ہوں'۔

محمد بن تغلق
محمد بن تغلق

الغ خان کے حوالے سے آپ اگر تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو کچھ ایسے حقائق ہیں جو آپ کو ہر مصنف بتادے گا۔ جملوں میں کچھ الفاظ کی اُلٹ پھیر ہوسکتی ہے مگر بات کا لُب لباب وہی نکلے گا۔

پہلا یہ کہ وہ ایک حقیقت پسند حاکم نہیں تھا۔ اس کے ساتھ کچھ نفسیاتی مسائل بھی تھے کیونکہ طاقت اس کے پاس تھی اس لیے بہت ساری غلطیاں چھپ جاتی ہیں۔ مگر اس نے اپنی طاقت کی وجہ سے ملک پر ایسے تجربے کیے جو یقیناً نہیں کرنے چاہئیں تھے۔

غیاث الدین تغلق اور محمد بن تغلق کا مقبرہ
غیاث الدین تغلق اور محمد بن تغلق کا مقبرہ

یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان دنوں سکندرِ اعظم کا ذکر کچھ زیادہ ہی رہتا ہوگا دربار میں، اس لیے بادشاہ سلامت کو دُور کے دیشوں کو فتح کرنے کا بڑا شوق تھا۔ وہ چین کو بھی فتح کرنا چاہتا تھا۔ یہ کچھ عجیب قسم کا خیال تھا کیونکہ 1329ء کے قریب ایک تاتاری ’ترمہ شیرین‘ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور ملتان سے لے کر دہلی تک ایک بربادی پھیلادی۔ اس نے بہت سارے شہروں پر قبضہ کرلیا۔ جونا خان میں اس سے مقابلے کرنے کی یقیناً سکت نہیں تھی۔ محمد قاسم فرشتہ تحریر کرتے ہیں کہ 'بادشاہ میں مقابلے کی تاب نہیں تھی لہٰذا وہ عاجزی اور نیاز مندی سے پیش آیا۔ اپنے امراء کے ذریعے نقد، جواہرات، بیش قیمت تحائف بھیجے اور اسی طرح اپنی اور رعایا کی جان بچائی'۔

بڑی فوج رکھنے کی دیوانگی، جونا خان کی بڑی غلطی تھی کیونکہ فوج رکھنے کے لیے خزانے پر جو اضافی بوجھ پڑا اس کو اتارنے کے لیے خراج کی شرح بہت زیادہ بڑھادی گئی جس سے غریب طبقے پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ حالات سے ایسا لگتا ہے کہ فطرت کی بھی اس سے کچھ زیادہ بنتی نہیں تھی، اس لیے آسمان پر سے گھنگور گھٹاؤں کے راستے بند کردیے گئے اور بارشیں بس نام کی پڑیں جس سے حالات اور بگڑ گئے۔

بعدازاں بادشاہ سلامت کے سر میں ایک نئے معجزے کے خیال نے جڑیں پکڑ لیں۔ اس نے سوچا کہ اگر چین میں سکّوں کی جگہ کاغذ کی کرنسی چل سکتی ہے تو یہاں تانبے اور پیتل کے سکّے کیوں نہیں چل سکتے اس لیے حکومتی خزانہ سونے اور چاندی کے سکّوں سے بھر گیا اور بازاروں میں تانبے اور پیتل کے سکّے چلنے لگے۔

محمد بن تغلق نے چاندی کے بجائے تانبے کے سکّوں کو رائج کرنے کا حکم دیا
محمد بن تغلق نے چاندی کے بجائے تانبے کے سکّوں کو رائج کرنے کا حکم دیا

تاریخ فرشتہ کے مطابق، 'ہندوستان میں یہ طریقہ کار کامیاب ثابت نہ ہوا اور پہنچ رکھنے والے لوگ سکّے اپنے گھروں میں ڈھالنے لگے۔ اس بدانتظامی کی وجہ سے بادشاہی فرمان اپنی اہمیت قائم نہ رکھ سکا۔ لوگ بغاوت اور سرکشی پر اتر آئے جس کے سبب دہلی اور آس پاس کے ملکوں میں یہ سکّے کوڑیوں کے دام میں بھی نہیں لیے جاتے تھے۔ یہ تو نہیں معلوم کہ بادشاہ سلامت کو بات سمجھ آئی یا نہیں مگر اس نے حکم دیا کہ تانبے اور پیتل کے سکّے شاہی خزانے میں جمع کردیے جائیں اور اس کے عوض چاندی اور سونے کے سکّے لوگوں کو دیے جائیں۔ بادشاہ نے اس خیال سے یہ حکم جاری کیا تھا کہ شاید اس طرح لوگ تانبے اور پیتل کے سکّوں کی قدر کرنے لگیں گے مگر نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔ لوگ بوریاں بھر بھر کر تانبہ اور پیتل کے سکّے لاتے اور شاہی خزانہ میں داخل کردیتے اور اس کے عوض سونے چاندی کے سکّے وصول کرلیتے۔ اس تبادلے سے عوام تو مالا مال ہوگئے لیکن شاہی خزانہ تانبے اور پیتل کے سکّوں سے بھر گیا اور شاہی خزانے کی ایسی حالت میں ملک پر تو منفی اثر پڑنا تھا جو پڑا بھی، جبکہ اس کے ساتھ سلطنت کا نظام بھی بگڑ گیا اور ابتری پھیل گئی'۔

کارل مارکس کے تجزیے کے مطابق 'جونا خان ایک اچھا حاکم تھا لیکن اس نے خود کو بڑے منصوبوں میں الجھا کر تباہ کرلیا۔ اس نے سب سے پہلا اقدام یہ اٹھایا کہ منگولوں کو خریدا اور ان کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ اس کے دورِ حکومت میں حملہ نہیں کریں گے'۔

محمدبن تغلق کے جاری کردہ سکے
محمدبن تغلق کے جاری کردہ سکے

محمد بن تغلق کی 25 سالہ حکومت (فروری 1325ء سے 20 مارچ 1351ء) سے متعلق آپ جب کتابوں سے رجوع کرتے ہیں تو کوئی اچھے الفاظ اور تاثرات پڑھنے کے لیے نہیں ملتے۔ ضیاء الدین برنی (تاریخ فیروز شاہی کے مصنف) سے خود بادشاہ نے ایک دن کہا کہ 'سلطنت کے ہر عضو میں طرح طرح کے امراض پیدا ہوگئے ہیں۔ ایک مرض کا علاج کیا جاتا ہے تو دوسرا بڑھ جاتا ہے'۔

یہ جونا خان کی گفتگو ان دنوں کی ہے جب بادشاہ اپنی حیات کے آخری 4 برس گجرات، کاٹھیاواڑ اور سندھ میں گزار رہا تھا۔ نہ موسم ساتھ دے رہے تھے اور نہ قسمت۔ بغاوتیں ایسے پھوٹتی تھیں جیسے بارش کے بعد ریت پر کھمبیاں پھوٹتی ہیں۔

برنی کے مطابق 'ہند و سندھ میں قحط و وبا، بغاوتوں اور سرکشیوں، بدامنی اور سیاسی ابتری کی وجہ سے عوام حکومت سے نفرت کرتے تھے۔ زندگی کے ہر طبقے میں افراتفری کا ماحول تھا، کہیں سوکھے کی وجہ سے لوگ مر رہے تھے تو کہیں وبا کا عذاب آیا ہوا تھا۔ کوئی نقل مکانی میں مصروف تھا تو کوئی جنگل اور پہاڑوں کی طرف جا رہا تھا۔ لُب لباب یہ کہ حالات کوئی اچھے نہیں تھے'۔

سندھ میں سومرا خاندان کی طویل حکومت اپنے آخری ایام تک آ پہنچی تھی اور کمزور حکومت کی وجہ سے محمد بن تغلق یعنی دہلی سرکار کو خراج دیتے تھے۔

سمہ سرداروں کے طاقت میں آنے کے دنوں کی ابتدا تھی۔ یہ بھی صدیوں سے یہاں رہنے والے مقامی لوگ تھے جن کے اگر ہم گزرے زمانے ڈھونڈیں تو رائے خاندان کی حکومت سے ان کا سِرا جا کر ملے گا۔

ابنِ بطوطہ جب 1333ء میں سندھ میں آیا تھا تو دہلی سرکار کی طرف سے سیہون میں اس برس کے ابتدئی مہینوں میں ’ملک رتن‘ نامی ایک غیر مسلم کو سیہون کا عملدار مقرر کیا گیا تھا۔ وہ ایک ذہین، ہوشیار اور علم پرور انسان تھا۔ مگر مقامی لوگوں میں اس مقرری سے بے آرامی پیدا ہوئی۔ ابنِ بطوطہ جس مدرسے کی چھت پر سوتا تھا وہاں سے شہر کی فصیل پر لٹکتی ہوئی نعشیں اسے سوتے جاگتے نظر آتی تھیں، جس کی وجہ سے اس نے وہ مدرسہ چھوڑ دیا تھا۔ اب وہ مدرسہ اور شہر کی فصیل تو شاید ہمیں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں اور شاید وہ بازاریں بھی نہ ملیں جن کے وسط میں بغاوت کرنے والے لوگوں کی کھوپڑیاں جمع کرکے ڈھیر لگا دیا گیا تھا۔

یہ بغاوت ابنِ بطوطہ سے کچھ پہلے ہوکر گزری تھی۔ پنہور صاحب کے مطابق 'سیہون میں دہلی سرکار کے عملداروں جام انڑ اور قیصر رومی نے مل کر بغاوت کی۔ ملک رتن جو خزانچی تھا اس کو ترقی دے کر گورنر مقرر کیا گیا۔ یہ دہلی سرکار کا فیصلہ ان دونوں کو گراں گزرا اور بہانہ بناکر ملک رتن کو قتل کردیا اور خزانے سے 12 لاکھ دینار لوٹ لیے۔

’جام انڑ کو ملک فیروز کا لقب دے کر بالائی سندھ کا حاکم بنادیا۔ یہ خبر جب ملتان پہنچی تو سرتیز لشکر کے ساتھ سیہون کے لیے روانہ ہوا۔ یہ بات سن کر جام انڑ ٹھٹہ کی طرف چلا گیا۔ سرتیز نے 45 دنوں تک سیہون کا محاصرہ جاری رکھا اور آخر قیصر رومی نے امان مانگی۔ جب قیصر اور اس کا لشکر امان کے وعدے پر باہر آیا تو سرتیز نے دھوکہ دیا اور پھر کسی کی جائیداد لوٹ لی جاتی تو کسی کی گردن ماری جاتی، کچھ کو تلوار سے 2 ٹکڑے کیے جاتے۔ کئی لوگوں کی کھال کھینچ کر اس میں بھوسہ بھروا کر ان کو شہر کے فصیلوں پر لٹکایا جاتا۔ لاشیں اتنی زیادہ تھیں کہ قلعے کی دیواریں دیکھنے میں نہیں آتی تھیں'۔

یہ ساری تفصیل ہمیں ابنِ بطوطہ کے سفرنامے میں ملتی ہے۔

اس اہم واقعے کے بعد ننگر ٹھٹہ پر سمہ حکمرانوں کی حکومت کی ابتدا ہوئی۔ 1347ء گجرات میں جو بغاوت پھوٹی اس نے کچھ طوالت پکڑ لی۔ قاسم فرشتہ لکھتے ہیں کہ 'محمد تغلق نے اب قلعہ دھارا کو فتح کرنے کا خیال کیا۔ 3 ماہ تک مسلسل قلعے کے اندر اور باہر خون کی ندیاں بہتی رہیں۔ ان حالات میں بادشاہ کو پتا لگا کہ ملک طغی نے سارا فساد برپا کیا ہے جو خود بھی احمد خواجہ جہاں کا غلام ہے۔

بادشاہ نربدا ندی پار کرکے بھڑوچ پہنچا کیونکہ اسے پتا چلا تھا کہ طغی بھڑوچ میں ہے۔ جب طغی کو پتا چلا کہ بادشاہ بھڑوچ آ رہا ہے تو وہ کھنبات آگیا۔ بادشاہ نے ملک یوسف بقرا کو، طغی کا پیچھا کرنے کے لیے بھیجا۔ کھنبات کے پاس جنگ ہوئی جس میں بقرا اور دوسرے اہم لوگ مارے گئے۔ بادشاہ کو بڑا غصہ آیا اور وہ طغی کا پیچھا کرتا احمد آباد سے ہوتا نہر والا (انھولواڑہ) پہنچا۔ وہاں چھوٹی جھڑپ ہوئی، وہاں سے پھر طغی قلعہ گرنار پہنچا۔ بادشاہ کا سُنا تو وہاں سے بھاگ کر سندھ کے ’جاموں‘ (سمہ سردار) کے ہان ننگر ٹھٹہ چلا گیا۔'

طغی اس راستے سے سندھ فرار ہوا تھا
طغی اس راستے سے سندھ فرار ہوا تھا

سائمن ڈگبی‘ (Simon Digby) اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں کہ 'یہ 1347ء کا زمانہ تھا۔ اس نے گرنار کی قلعہ بندی کی لیکن اس سے پہلے ہی حاکم ’رائے کنگھار‘ کشتیوں پر فرار ہوگیا اور بن تغلق نے قلعے پر قبضہ کرلیا اور پھر بادشاہ کچھ عرصے کے لیے کاٹھیاواڑ کے نظم و نسق میں مصروف رہا۔ کچھ وقت کے بعد اس نے سندھ جانے کا ارادہ کیا اور اسی خیال سے 1348ء میں گرنار سے روانہ ہوکر گونڈل پہنچا جو گرنار سے 15 کوس پر تھا'۔

یہاں اسے تپ و دق کے مرض نے اپنا شکار بنایا۔ مولانا ابو ظفر ندوی لکھتے ہیں کہ 'بیماری کے بعد بادشاہ نے خداوند زادہ، مخدوم زادہ (اُس زمانے میں یہ القابات مقبول تھے کہ جو خاندان غور سے ہو (یعنی غوری سلطنت) وہ ’خداوند زادہ‘ کہلاتا اور جو خاندان خلیفہ عباسی سے تعلق رکھتا وہ ’مخدوم زادہ‘ کہلاتا تھا)، اکابرین، دولت اور حرم ہائے ملوک، معہ سوار و پیادہ جو طلب کیا تھا وہ سب گونڈل پہنچے۔ سلطان نے کچھ تو اپنی بیماری اور کچھ فوجوں کی تیاری کے سبب برسات کا پورا موسم (1349ء) اسی جگہ پر گزاردیا۔ ہر جگہ سے جن جن لوگوں کو بلایا تھا وہ سب پہنچ گئے۔ ایک بڑی فوج تیار ہوگئی اور بادشاہ بھی صحتیاب ہوگیا اور کوچ کا حکم دیا۔ ساتھ میں بادشاہ کو یہ بھی خیال آیا کہ ٹھٹہ ایک بندرگاہ ہے اس لیے فقط خشکی سے لشکر کشی یا محاصرہ کافی نہیں ہوگا لہٰذا حکم دیا کہ دیپال پور، ملتان، اُچ اور سیوستان (سیہون) سے، ٹھٹہ کی طرف کشتیاں روانہ کردی جائیں'۔

حکم کی تعمیل کی گئی اور سندھ پر ایک بڑا حملہ کرنے کے لیے فوجیں اس طرف بڑھنے لگیں۔ بادشاہ اگر گوندل سے کَچھ والا راستہ لیتا تو اس کو یہ راستہ نزدیک بھی پڑتا اور آسان بھی مگر چونکہ ان دنوں کَچھ پر جاڑیجا سموں کا راج تھا جن کی بادشاہ سے بنتی نہیں تھی۔ چنانچہ بادشاہ سلامت نے ایک طویل ریگستانی راستے کا انتخاب کیا۔ گوندل سے نکلے تو رن آف کَچھ کو پار کرکے ریگستان سے ہوتے ہوئے نصرپور پہنچے۔ اس زمانے میں دریائے سندھ کا مرکزی بہاؤ نصرپور سے بہتا تھا جسے پار کیا گیا۔

اب اس جگہ میرے سامنے ان آخری ایام کا تذکرہ 2 کتابوں 'تاریخ فرشتہ' اور 'تاریخ گجرات' میں ملتا ہے۔ دونوں میں ان ایام کے بارے میں کوئی تضاد نہیں ملتا ہے۔

دونوں کتابوں کے لکھنے والوں کی تحریروں کا لُب لباب یہ ہے کہ '1350ء کے آخری ایام میں بادشاہ نے دریائے سندھ کے بہاؤ کو عبور کیا اور دوسرے پار پہنچ کر تمام امراء و ارکان دولت کے ساتھ خیمہ میں فروکش ہوا۔

یہاں پر بلخ کے بادشاہ التون بہادر جو 5 ہزار کے قریب مغل جنگجو امیر فرغن کی ماتحتی میں سلطان کے لیے بھیجے تھے وہ بادشاہ سے ملے۔

سلطان نے ان پر بڑی نوازش اور عنایت کی اور انعامات سے خوش کیا۔ یہاں سے بادشاہ بے شمار فوج لے کر ننگر ٹھٹہ کے حاکموں کی گوشمالی کے لیے نکل پڑا، جن لوگوں نے اس کے غدار ملک طغی کو پناہ دی تھی۔ وہ تیزی سے آگے بڑھتا رہا۔ ان لمحوں میں شہنشاہ ہند کو یقیناً معلوم نہیں ہوگا کہ ملک طغی دراصل اس کے لیے موت کا پیغام ہے۔جہاں اس کی دوڑ ختم ہوگی وہیں پر محمد بن تغلق کی موت بھی کھڑی ہوگی۔

جب ٹھٹہ کی جانب 30 کوس پر پہنچا تو وہ ماہ محرم اور یوم عاشورہ کا وقت تھا۔ سلطان نے روزہ رکھا اور شام کو افطار کے وقت مچھلی کھائی جو مزاج کے خلاف پڑی اور اسی وجہ سے دوبارہ تپ میں مبتلا ہوگیا۔ اس علالت کے باوجود وہ کشتی پر سوار ہو کر ٹھٹہ سے 14 کوس (سونڈا کے مقام پر) پہنچ کر وہیں رہنے لگے۔ طبیعت روز بروز بگڑتی گئی اور آخر 21 محرم 752ھ بمطابق 20 مارچ 1351ء کو وہ انتقال کرگئے'۔

کچھ محققین کی رائے ہے کہ، سلطان کو مچھلی میں زہر ملا کر دیا گیا تھا۔ اس کے بہت سارے اسباب بھی بیان کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے سو اگر وقت نے ساتھ دیا تو کسی اور نشست میں اس پر ضرور بات کریں گے۔

محمد تغلق کی وفات کے تیسرے دن مشیروں اور اہم لوگوں سے صلاح و مشورے کے بعد، فیروز شاہ تغلق، 23 مارچ 1351ء بروز بدھ تخت سلطنت پر متمکن ہوا اور ننگر ٹھٹہ کا محاصرہ اُٹھالیا گیا'۔

ایلفنسٹن اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ 'سلطان کا حافظہ بڑا کمال کا تھا مگر وہ شاید کئی راستوں کا مسافر تھا۔ فطرت نے ضد اس کی طبیعت میں گھول دی تھی۔ جب ٹھٹہ کے قریب اس کی موت ہوئی تو شاید کسی کو دکھ نہیں ہوا بلکہ ایسا محسوس ہوا کہ بہت کچھ پُرسکون ہوگیا ہے'۔

محمد بن تغلق اور غیاث الدین تغلق کی قبریں
محمد بن تغلق اور غیاث الدین تغلق کی قبریں

محمد بن تغلق کی موت تاریخ کے صفحات میں شک و شبہات میں ڈوبی ہوئی موت ہے۔ کچھ مؤرخین کے مطابق اس کی موت زہر خُورانی کی وجہ سے ہوئی اور اس لیے بہت ساری وجوہات بھی بتائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ سلطان کو ایک لمبے عرصے تک سیہون میں امانت کے طور پر دفن کیا گیا تھا اور آگے چل کر اسے دہلی میں دفن کیا گیا کیونکہ تخت کا مالک بننے کے بعد ’سلطان فیروز‘ کچھ وقت سیہون میں رہا، اپنے نام کے سکّے سیہون سے جاری کیے اور وہیں بیٹھ کر احکامات جاری کیے اور کئی نئی مقرریاں بھی کیں۔

جس طرح کبھی کبھی آپ کی صورت آپ کی دشمن بن جاتی ہے کچھ اسی طرح ننگر ٹھٹہ کے شہر کی خوبصورتی، اس کی بندرگاہ اور بیوپار اس شہر کا دشمن ہی رہا ہے۔

فیروز شاہ تغلق
فیروز شاہ تغلق

فیروز تغلق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک بہتر حکمران تھا مگر اس واقعے کے بعد وہ پھر ننگر ٹھٹہ کو زیر کرنے کے لیے 1361ء میں اپنی فوجوں کے ساتھ آ پہنچا۔ اس کا یہاں سندھ میں آنا اور حملے کے حقائق یقیناً انتہائی حیرت انگیز اور دلچسپ ہیں، ساتھ میں یہ واقعات اپنی جھولی میں یہ حقیقت بھی چھپائے ہوئے ہیں کہ تخت و تاج کتنے بھی طاقتور اور خونخوار کیوں نہ ہوں، وہ ایک مختصر وقت کے لیے لوگوں اور دوسری سلطنتوں کو پریشان ضرور کرسکتے ہیں مگر وہ اپنی مرضی زیادہ وقت تک چلا نہیں سکتے لیکن ہم اس بات کو جانتے ہوئے بھی انجان بنتے رہے ہیں کہ یہ دھرتی ’مثبت‘ اور ’منفی‘ طاقتوں کے جنگ کا میدان ہے۔

منفی عمل کو دوام مل ہی نہیں سکتا۔ چاہے کوئی کتنی بھی کوشش کیوں نہ کرلے کہ یہ فطرت کا ایک کبھی تبدیل نہ ہونے والا قانون ہے۔ مثبت کو ایک آنچ کی بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ یہ بھی فطرت کا اٹل قانون ہے۔

جہاں جہاں منفی عوامل کے بیج بوئے گئے وہ کیسے اگتے؟ کہ ان کو اگنا تھا ہی نہیں سو تخلستان کی تمنا ایک عبث کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مثبت عمل کے بیج اگر ہواؤں میں بھی چھوڑ دیں تو کہیں بھی جاکر اُگ پڑیں گے کہ اگنا اور نخلستان بننا ان کے نصیبوں میں فطرت نے لکھ دیا ہے!


حوالہ جات

۔ ’تاریخ فرشتہ‘۔(جلد اول دوئم)۔ محمد قاسم فرشتہ۔’المیزان ناشران و تاجران کتب‘۔ لاہور

۔’سفرنامہ ابن بطوطہ‘۔ خان بہادر مولوی محمد حسین۔ ’تخلیقات‘ لاہور

۔ ’ہندوستان تاریخی خاکہ‘۔ کارل مارکس۔ ترجمہ: احمد سلیم۔ ’تخلیقات‘ لاہور

۔ ’تاریخ ہندوستان سلطنت اسلامیہ‘۔ (جلد دوئم)۔ مولوی ذکا اللہ

۔ ’تاریخ گُجرات‘۔ سید ابوالظفر ندوی۔ ندوۃ المصنفین دہلی

۔ سائمن ڈگبی کا ریسرچ پیپر:’محمد بن تغلق کے کاٹھیاواڑ اور سندھ میں آخری ایام‘

۔ ’سندھ کتھا‘۔ ایم۔ایچ۔پنوھر۔ عمر سومرو اکیڈمی، کراچی

The History of India. Vol: II. Mountstuart Elphinstone. London 1841


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔