سائنسدانوں نے موٹاپے کی بنیادی وجہ دریافت کرلی جو زیادہ کھانا نہیں

14 ستمبر 2021
یہ انتباہ ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا— شٹر اسٹاک فوٹو
یہ انتباہ ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا— شٹر اسٹاک فوٹو

ویسے تو مانا جاتا ہے کہ بہت زیادہ کھانا لوگوں کو موٹاپے کا شکار بناتا ہے.

مگر ضرورت سے زیادہ کھانا موٹاپے کی بنیادی وجہ نہیں بلکہ لوگوں کا غذائی اتتخاب اس حوالے سے اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

واضح رہے کہ موٹاپے سے امراض قلب، فالج، ذیابیطس ٹائپ ٹو اور کینسر کی مخصوص اقسام کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل اور ہارورڈ میڈیکل اسکول کی اس تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ لوگوں موٹاپے کے شکار کیوں ہوتے ہیں اور دریافت کیا کہ غیر معیاری غذا اور پراسیس کاربوہائیڈریٹس کا انتخاب موٹاپے کی وجہ بنتا ہے۔

محققین نے کاربوہائیڈرٹ۔ انسولین ماڈل کو بھی تجویز کیا جبکہ موٹاپے کی وجوہات کی وضاحت کی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت موجود انرجی بیلنس ماڈل سے جسمانی وزن میں اضافے کی وجوہات کی وضاحت نہی ہوسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ لڑکپن میں روزانہ جزوبدن بننے والی کیلوریز کی مقدار ایک ہزار تک پہنچ سکتی ہے، مگر کیا ضرورت سے زیادہ کھانا واقعی موٹاپے کی وجہ بنتا ہے؟

محققین کے تجویز کردہ نئے ماڈل میں موٹاپے کی وجہ موجودہ عہد کے غذائی انتخاب کو قرار دیا گیا جس میں ایسی غذاؤں کا زیادہ استعمال ہوتا ہے جو پراسیس اور بہت تیزی سے ہضم ہونے والے کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہوتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ غذائیں ہارمونز ردعمل کا باعث بن کر میٹابولزم میں تبدیلیاں لاتا ہے جس کے باعث جسم میں چربی کا ذخیرہ ہونے لگتا ہے اور اس کا نتیجہ جسمانی وزن میں اضافے اور موٹاپے کی شکل میں نکلتا ہے۔

محققین نے مزید بتایا کہ جب ہم بہت زیادہ پراسیس کاربوہائیڈریٹس کو زیادہ کھانے لگتے ہیں جو جسم میں انسولین کا اخراج بڑھتا ہے اور گلوکوز کا اخراج دب جاتا ہے، جس کے باعث چربی کے خلیات کو زیادہ کیلوریز ذخیرہ کرنے کا سگنل ملتا ہے، مسلز اور میٹابولک متحرک ٹشوز کے لیے دستیاب کیلوریز بہت کم ہوجاتی ہے۔

تحقیق کے مطابق جب جسم کو مناسب مقدار میں توانائی حاصل نہیں ہوتی تو اس کے ردعمل میں دماغ بھوک کا احساس بڑھا دیتا ہے، جسم کی جانب سے افعال کے لیے درکار ایندھن کو محفوظ رکھنے کی کوشش سے میٹابولزم کی رفتار سست ہوجاتی ہے، جس سے بھی کھانے کے بعد بھوک کا احساس بڑھ جاتا ہے چاہے جسم میں اضافی چربی ہی کیوں نہ جمع ہوجائے۔

محققین نے بتایا کہ غذا کی کم مقدار طویل المعیاد بنیادوں پر جسمانی وزن میں کمی نہیں لاتی، کاربوہائیڈریٹ۔انسوین ماڈل میں تجویز کیا گیا ہے کہ زیادہ توجہ اس بات پر مرکوز کی جائے کہ ہم کیا کھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بہت تیزی سے ہضم ہونے والے کاربوہائیڈریٹس کی بجائے کم چکنائی اور صحت کے لیے مفید غذاؤں کا انتخاب کرنا جسم میں چربی کے ذخیرے کو کم کرتا ہے، جس سے جسمانی وزن میں کمی آتی ہے جبکہ بھوک بھی کم لگتی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے امریکن جرنل آف کلینکل نیوٹریشن میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں