Karachi's plague of violence brings armoured car boom 670
عام کار کو بلٹ پروف اور بکتر بند گاڑی میں تبدیل کرنے کی لاگت تیس لاکھ نوّے ہزار روپے سے چھیالیس لاکھ پینتیس ہزار روپے کے درمیان بنتی ہے۔ جو پاکستان کے زیادہ تر لوگوں کے تصور سے کہیں زیادہ بڑھ کر ایک بہت بڑی رقم ہے۔ —. فوٹو اے ایف پی

مزید تصاویر گیلری میں ملاحظہ کیجیے۔

آج کل کراچی میں اغوا برائے تاوان کی ایک ایسی لہر آئی ہوئی ہے جس کی شاید مثال نہ مل سکے، پاکستان کے اس شہر میں اشرافیہ طبقے کے لوگوں نے اپنی لگژری کاروں کو بم پروف اور بلٹ پروف بنالیا ہے۔

بحیرہ عرب کے ساتھ وسیع و عریض رقبے پر ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کا یہ عروس البلاد شہر پاکستان کا معاشی قلب ہے۔ یہاں فیکٹریوں کی اور امپورٹ ایکسپورٹ کے پہیے کو رواں رکھنے والے ڈیلروں کی بھرمار ہے اور شائستہ لہجے کے بینکروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ لیکن اسی شہر نے ملک کو بڑھتے ہوئے تشدد، جرائم اور عدم مساوات کی وجہ سے ایک مشکل امتحان میں ڈال رکھا ہے۔

نسلی اور سیاسی اختلافات نے خونی گینگ وار کو ہوا دی ہے، منشیات کے دھندوں ملوث مافیا،  طالبانی عناصر اور غنڈہ گردی کے دن رات بڑھتی ہوئی وارداتوں نے ایک ایسے کلچر کو جنم دیا ہے جس نے پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پکڑ کا خوف ختم کردیا ہے۔

کراچی میں جو کچھ ہوتا ہے، اس کا اثر لامحالہ پاکستان کی مجموعی صورتحال پر بھی پڑتا ہے۔ دہشت گردی اور اغوابرائے تاوان کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے، جبکہ بہت سی ہلاکتیں اُجرتی  قاتلوں کو پیسہ دے کر کروائی جاتی ہیں۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں سے حاصل ہونے والی رقم کو بعد میں دہشت گردی کے حملوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

Deported Afghan nationals prepare to board a bus inside the premises of the Central Jail in Karachi
مختلف الزامات میں سزا پانے والے مجرمین سینٹرل جیل سے باہر آرہے ہیں۔ کراچی میں اغوا برائے تاوان کے کاروبار میں افغان مہاجرین بھی بڑی تعداد میں ملوث پائے گئے ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز

ڈان اردو پر ہی شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پولیس اور اینٹی وائلنٹ کرائم سیل ان وارداتوں پر قابو پانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ یوں تو اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کراچی بھر میں رپورٹ ہو رہی ہیں، تاہم سب سے زیادہ تناسب گڈاپ ٹاون، بن قاسم ٹاون اور ملیر ٹاون میں ہے۔ ذرائع کے مطابق سرجانی ٹاون اور گلشن معمار اغواءکاروں کے گڑھ ہیں۔  بتایا جاتا ہے کہ ان علاقوں کے پولٹری اور تفریحی فارمز مغویوں کو قید کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں  اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرنے والے  بعض گروہوں  کا نیٹ ورک اس قدر مضبوط ہوچکا ہے کہ ان کے علاقے پولیس کے لیے بھی نو گو ایریا بنے ہوئے ہیں۔

اس کے باوجود کراچی میں پولیس نے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملؤث گروہوں کے خلاف کامیاب آپریشن بھی کیے ہیں، پولیس کی کارروائی میں تیس اغواکار مارے گئے اور 14 مغویوں کو بازیاب کرالیا گیا۔ پکڑے جانے والے اغواکاروں سے یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ زیادہ تر اغوا کاروں کا  دہشت گردی کی وارداتوں سے بھی تعلق ہے ۔ شہروں میں اغوا کی وارداتیں کرنے والے بڑے گینگز کا تعلق شمال مغرب کے پشتون اور جنوب مغرب کے بلوچ قبائل سے ہے۔ پاکستان کے یہ قبائلی علاقے طویل عرصے سے اغوابرائے تاوان کی وارداتوں سے متاثر رہے ہیں، لیکن اس وقت یہ گینگز یقین رکھتے ہیں کہ کراچی اغوا برائے تاوان کے کاروبار کے لیے سونے کی کان بن چکا ہے۔

کراچی میں بہت سے اغواکار دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں، سیاست پر اثرانداز ہوتے ہیں اور مذہبی فرقہ واریت اور شدت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔

ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق کراچی میں طالبان کے ناصرف قبائلی عسکریت پسندوں سے تعلقات ہیں بلکہ ان کے القاعدہ اور دیگر کالعدم عسکری گروہوں سے بھی تعلقات ہیں۔اس عسکریت پسند گروہ کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن بینک ڈکیتوں، چوریوں، گاڑیاں چھیننا اور اغوا برائے تاوان پر ہے۔ اسے کراچی میں منظم جرائم پیشہ گروہوں کی مدد بھی حاصل ہے۔ طالبان انتہاپسندوں نے بہت سارے جرائم پیشہ عناصر کو مختلف عہدوں پر بھرتی کیا ہوا ہے۔ وہ اپنے ان جرائم کے جواز میں باور کراتے ہیں کہ ان بینکوں، امیر لوگوں کے گھروں اور کمپنیوں کو لوٹنا جائز ہے کیونکہ انہوں نے یہ دولت غیر اسلامی طریقہ سے جمع کی ہے، جس میں سود بھی شامل ہے۔ عسکریت پسند اپنی ان باتوں کے جواز میں یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ چونکہ وہ امریکہ اور پاکستانی سیکورٹی فورسز کے خلاف حالت جنگ میں ہیں تو اس مقدس جنگ میں ان کے لیے غیر قانونی ذرائع استعمال کرنا جائز ہے۔

A Policeman in plain cloth showcase a handcuffed and blindfolded man to the media at Police CID in Karachi
سی آئی ڈی اہلکار میڈیا کے سامنے ایک مشتبہ شخص کو پیش کررہا ہے، جس پر الزام تھا کہ وہ متعدد لڑکیوں کو خودکش حملوں میں استعمال کرچکا ہے۔ —. فائل فوٹو رائٹرز

اے ایف پی کا کہنا ہے کہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق گزشتہ دو سالوں کے دوران ہلاکتوں کی تعداد میں خوفناک شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ 2013ء کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران ایک ہزار سات سو چھبیس افراد کراچی میں ہلاک ہوئے، گزشتہ سال کے دوران اتنے ہی عرصے میں ایک ہزار دو سو پندرہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

پولیس اور سیٹیزن پولیس لائژن کمیٹی کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس اغواء برائے تاوان کے کیسز میں قلیل مدتی اغوا کی وارداتیں زیادہ کی جارہی ہیں۔ سی پی ایل سی ایک ایسا ادارہ ہے جو اغوا برائے تاوان کے کیسوں کو حل کرنے میں ایک جانب پولیس اور دوسری جانب اغوا ہونے والے شخص کے اہلِ خانہ کو مدد فراہم کرتا ہے۔

سی پی ایل سی کے سربراہ احمد چنائے نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا  کہ قلیل مدتی اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ایک شخص پر نظر رکھی جاتی ہے اور اس کے بارے میں جاننے کے بعد اسے اس کی گاڑی سمیت اغوا کیا جاتا ہے اور شہر کی سڑکوں پر گھمایا جاتا ہے۔ ان کے بقول اسی دوران اغوا کنندہ کے موبائل فون کے ذریعے اس کے اہلِ خانہ سے تاوان کی رقم طلب کی جاتی ہے، رقم ملنے کی صورت میں اغوا کیے جانے والے شخص کو آزاد کردیا جاتا ہے۔

اس تمام کارروائی میں لگ بھگ چار سے چھ گھنٹوں کا وقت صرف ہوتا ہے۔ ایسی وارداتوں میں ہر ایک سے دو لاکھ سے بیس لاکھ تک کی رقم وصول کی گئی ہے۔ اعداد و شمار کو تیار کرنا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب لوگ کیس کو پولیس میں رپورٹ کرتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی بھی کافی تعداد ہے جو کیس رپورٹ ہی نہیں کرتے۔ کیس رپورٹ نہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جو ہونا تھا ہوگیا اب پولیس اور تھانوں کے چکر لگانے کا کیا فائدہ۔

سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی سے ملنے والے ایک اور اعداد وشمار کے مطابق 2012ء میں تقریباً 130 افراد کو اغوا کیا گیا۔

Residents walk past members of Pakistan's police and paramilitary Rangers forces in Karachi
رینجرز اور پولیس کے گشت کے باوجود کراچی میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں جاری رہتی ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز

ندیم خان جو ایک فارماسیوٹیکل لیب اور ایک ماربل ورکشاپ کے مالک ہیں۔ شہر کے اور دیگر بہت سے کامیاب کاروباری افراد کی طرح وہ بھی اس شہر میں خطرات کو محسوس کرتے ہیں اور وہ اپنی حفاظت کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔

انہوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”کراچی کابل سے کہیں زیادہ خطرناک شہر بن چکا ہے۔یہاں پولیس اور رینجرز کے نیم فوجی دستے موجود ہیں، لیکن وہ مجرموں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں کرپاتے۔“

انہوں نے کہا ”یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنی حفاظت کے لیے ذاتی باڈی گارڈ اور بکتر بند گاڑیوں کے حصول پر مجبور ہورہے ہیں۔“

قتل و غارت گری اور اغوا برائے تاوان کی اس مہلک وباء میں کمی کاکہیں سے کوئی اشارہ نہیں نظر آتا، لہٰذا جولوگ استطاعت رکھتے ہیں، وہ اپنی کاروں کی باڈی اور شیشوں کو اس قابل بنوارہے ہیں کہ وہ ناصرف اے کے-47 کی گولیوں سے بلکہ بم حملوں میں بھی محفوظ رہ سکے۔

ندیم خان نے اپنی دو لینڈکروزرز کو بکتر بند گاڑی میں تبدیل کروالیا ہے، جبکہ ان کے والد اور بھائی کے لیے دو مزید گاڑیاں ابھی بکتربند گاڑی میں تبدیل ہونے کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا ”مجھے کئی مرتبہ دھمکیاں دی گئی ہیں۔ میں کورنگی انڈسٹریل ایریا میں لاء اینڈ آرڈر کمیٹی کا سربراہ ہوں اور یہاں ڈاکوؤں اور لٹیروں کی بڑی تعداد موجود ہے۔“

ان کا کہنا تھا ”یہاں بھتہ وصولی کے بہت سے گروپس بھی موجود ہیں، یہ لوگ ہمیشہ فون پر ہی دھمکیاں دیتے ہیں۔“

یہ وقت کراچی کے دولت مندوں کے لیے نہایت پریشان کن ہے، لیکن ”اسٹریئٹ“ کی طرز کی ان  کمپنیوں کے لیے جو عام گاڑیوں کو بکتر بند گاڑیوں میں تبدیل کردیتی ہیں،کاروبار کی تیزی کا انتہائی اہم موقع ہے۔

اسٹریئٹ پاکستان کے سربراہ خالد یوسف کا کہنا ہے کہ انہوں نے دسمبر میں اپنے کام کا آغاز کیا تھا، اور اب ان کا کاروبار دُگنا ہوچکا ہے۔

گرد آلود اور دھول سے اٹے اس شہر کے درمیان ایک نہایت صاف ستھری ورکشاپ پالش کیے ہوئے چمچماتے ٹھوس فرش پر ”اسٹریئٹ“ کے میکینکوں کی ایک ٹیم درجنوں فور وھیلرز گاڑیوں پر کام کرتی ہے۔

A Pakistani policeman searches a pedestr
لوگوں کا خیال ہے کہ پولیس عام لوگوں کو چیکنگ کے نام پر پریشان کرتی ہے، لیکن مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ —. فوٹو اے ایف پی

بھاری بھرکم ٹیوٹا لینڈ کروزر کا یہاں صرف ڈھانچہ موجود ہے، ایک انجن، پہیے اور چیسز کے ساتھ کوئی باڈی ورک نہیں کیا گیا، نہ ہی دروازوں اور سیٹوں پر ۔

یہاں پر میکینکس دھات کی موٹی پلیٹوں کو لیزر کے ذریعے دروازوں اور نچلی سطح کے سائز کے مطابق کاٹ کر انہیں فٹ کرتے ہیں، بلٹ پروف کھڑکیاں لگاتے ہیں، بیٹری کی حفاظت کے لیے اس کو دھاتی پنجرے میں فٹ کردیا جاتا ہے اور گاڑی کے ڈھانچے میں بھی اسٹیل کی اضافی کوٹنگ کی جاتی ہے اور بلٹ پروف شیشے لگائے جاتے ہیں۔

خالد یوسف نے بتایا کہ  اس سارے کام کی لاگت تیس لاکھ نوّے ہزار روپے سے چھیالیس لاکھ پینتیس ہزار روپے کے درمیان بنتی ہے۔ جو پاکستان کے زیادہ تر لوگوں کے تصور سے کہیں زیادہ بڑھ کر ایک بہت بڑی رقم ہے۔ لیکن یہ دولت مند اپنے ذہنی سکون کے لیے خوشی خوشی یہ رقم دینے کے لیے تیار ہیں، یوں عام گاڑیوں کو بکتر بند گاڑیوں میں تبدیل کرنے کا یہ کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ”جب ہم نے یہ کام شروع کیا تھا تو ہمیں یہ توقع تھی کہ ہمیں ہر مہینے تین سے چار کاروں کو بکتر بند بنانے کا کام مل جائے گا، لیکن جس دن سے ہم نے یہ کام شروع کیا ہم سات سے دس کاروں کی شرح سے آگے بڑھتے رہے۔“

”اب ہم تقریباً پندرہ کار فی مہینے کے حساب سے کام کررہے ہیں۔ امید ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہوگا۔“

بکتر بند کاروں کے کاروبار سے منسلک لوگ اس حوالے سے بات کرنے سے ہچکچارہے تھے، لیکن کچھ نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ کاروبار ترقی کررہا ہے۔

ایک سیلز مین نے اے ایف پی کو بتایا ”پہلے ہم فلموں میں دیکھتے تھے کہ میکسیکو اور جنوبی امریکہ میں لوگ بکتر بند گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔“

”جب ہمیں اس بارے میں معلوم ہوا تو ہمیں حیرت ہوئی کہ یہ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں، لیکن اب یہ پاکستان میں بھی ہورہا ہے۔دولت مند اور معروف لوگ اپنی حفاظت کے لیے اس بارے میں دریافت کررہے ہیں، اور وہ بکتر بند گاڑیوں میں ہر طرف گھوم رہے ہیں۔“

میڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک ایگزیکٹیو جنہوں نے اپنا اصل نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ کراچی میں اغوا ہونے کے خطرات حالیہ برسوں میں بہت سے لوگوں کے لیے اس سال بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔

لیکن حالت اس نہج پر جاچکے ہیں کہ اب اس طرح کی حفاظتی تدابیر بھی بہت زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوسکیں گی۔ آپ کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ہے یا ہوسکتا ہے، محض یہ کافی بھی نہیں ہے آپ نے خود کو بہت زیادہ محفوظ بنالیا ہے۔ اور کراچی میں بکتربند گاڑی بھی آپ کو محفوظ بنانے کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ گزشتہ ماہ صدر آصف علی زردای کے سیکیورٹی چیف بلال شیخ پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ اپنی بکتر بند کار چلا رہے تھے۔ ان کے ڈرائیور نے جیسے ہی دروازہ کھولا ایک خودکش بمبار نے تیزی کے ساتھ کار میں داخل ہونے کی کوشش کی اور خود کو دھماکے سے اُڑا دیا، اور بلال شیخ فوری طور پر ہی ہلاک ہوگئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں