ایچ آئی وی ایک ایسا وائرس ہے جو انسانی مدافعتی نظام کو خون کے سفید خلیات تباہ کرکے نقصان پہنچاتا ہے، جس سے وہ انفیکشن کے خلاف لڑنے کے قابل نہیں رہتے، جس سے سنگین امراض اور مخصوص اقسام کے کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔

ایڈز ایچ آئی وی انفیکشن کی آخری اسٹیج ہوتی ہے اور برسوں سے سائنسدان اس کے علاج کی دریافت کے لیے کوششیں کررہے ہیں اور لگتا ہے کہ اب یہ مرض ناقابل علاج نہیں رہے گا۔

اب سائنسدان ایچ آئی وی کے تیسرے مریض (پہلی خاتون اس سے قبل 2 مردوں میں یہ کامیابی حاصل کی گئی تھی) کو اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ ٹریٹمنٹ کے ذریعے اس بیماری سے نجات دلانے میں ممکنہ طور پر کامیاب ہوگئے ہیں۔

ایچ آئی وی سے متاثر اس خاتون کے علاج کے لیے ایک نئے طریقہ کار کو استعمال کیا گیا تھا جس میں آنول کی نالی کے خون سے مدد لی گئی جو بون میرو کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے دستیاب بھی ہوتا ہے۔

اسی طرح ڈونر کی آنول کی نالی کے اسٹیم سیلز کو مریض کے لیے بہت زیادہ میچ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے بون میرو سیلز کے لیے ہوتی ہے/

محققین نے بتایا کہ ہمارا تخمینہ ہے کہ صرف امریکا میں اس طریقہ کار 50 مریضوں کو فائدہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آنول کی نالی کے خون کے جزوی میچ کی خصوصیت مریضوں کے لیے مناسب ڈونر کو تلاش کرنے کے امکان کو بڑھاتی ہے۔

خاتون کا نام نہیں بتایا گیا بلکہ اس نیویارک پیشنٹ بتایا کیونکہ اس کا اعلان نیویارک پروبائٹرن وایل کارنیل میڈیکل سینٹر میں ہورہا تھا۔

اس خاتون میں 2013 میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی جبکہ 4 سال بعد خون کے سرطان کی بھی تشخیص ہوئی۔

ماہرین نے نئے طریقہ علاج ہاپلو کورڈ ٹرانسپلانٹ کے تحت جزوی میچ والے ڈونر کے آنول کا خون دے کر کینسر کا علاج کیا۔

اس ٹرانسپلانٹ کے بعد خاتون کو اضافی اسٹیم سیلز بھی فراہمے کیے گئے جو بہت تیزی سے بڑھے مگر بتدریج کورڈ بلڈ سیلز میں بدل گئے۔

اگست 2017 کو ٹرانسپلانٹ کے بعد سے کینسر سے نجات کو 4 سال سے زیادہ عرصے ہوچکا ہے جبکہ ٹرانسپلانٹ کے 3 سال بعد انہوں نے اور ڈاکٹروں نے ایچ آئی وی علاج کو روک دیا تھا۔

اس بات کو 14 ماہ ہوچکے ہیں مگر اب تک وائرس کے دوبارہ ابھرنے کے آثار نہیں ملے۔

ماہرین کے مطابق یہ حقیقت کہ وہ ایک خاتون ہیں تو یہ نتیجہ سائنسی طور پر بہت اہم ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں ایچ آئی وی کے ساڑھے 3 کروڑ سے زیادہ کیسز میں سے 50 فیصد سے زائد خواتین کے ہیں مگر علاج کے ٹرائلز میں ان کی شمولیت محض 11 فیصد ہے۔

اس سے قبل 2011 میں ایک امریکی شہری ٹموتھی براﺅن نے بھی ایچ آئی وی سے نجات پائی تھی۔

بعد ازاں 2016 میں ایڈ کاسیلیجو نامی مریض بھی ایچ آئی وی کو شکست دینے میں کامیاب ہوا تھا۔

ان دونوں کو بھی خون کے سرطان کا سامنا ہوا تھا اور علاج کے لیے اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ ٹرٹیمنٹ کی مدد لی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں