فیصل واڈا کی سپریم کورٹ سے نااہلی کیس کی فوری سماعت کی درخواست

اپ ڈیٹ 20 فروری 2022
ایک روز قبل ہی فیصل واڈا نے ای سی پی کے 9 فروری کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا — فائل فوٹو: ڈان
ایک روز قبل ہی فیصل واڈا نے ای سی پی کے 9 فروری کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا — فائل فوٹو: ڈان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فیصل واڈا نے اپنی امریکی شہریت چھپانے پر پارلیمنٹ سے تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست کی فوری سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں ایک نئی درخواست دائر کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک روز قبل ہی فیصل واڈا نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے 9 فروری کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس کے تحت انہیں پارلیمانی سیاست سے ہمیشہ کے لیے روک دیا گیا ہے۔

تازہ درخواست میں سابق سینیٹر نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ 21 فروری سے شروع ہونے والے ہفتے میں ان کی نااہلی کے معاملے کو ترجیحی طور پر طے کیا جائے۔

سینئر وکیل وسیم سجاد کے توسط سے دائر درخواست میں عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ ای سی پی نے انہیں تاحیات نااہل قرار دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کو استعمال کرنے کی کوئی بنیاد یا وجہ نہیں بتائی۔

یہ بھی پڑھیں: فیصل واڈا کی نااہلی کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر

درخواست میں استدلال کیا گیا کہ ای سی پی کے اس فیصلے سے یہ تاثر نظر آتا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 (ون)(سی) کے تحت (دوہری شہریت رکھنے پر) نااہل قرار دیا گیا کوئی بھی شخص آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت خود بخود سزا یافتہ شمار کیا جائے گا، لیکن یہ درست نہیں ہے۔

درخواست میں استدلال کیا گیا کہ آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت جرمانہ عائد کرنے کے لیے عدالت کے سامنے جرم کے ارادے کے ساتھ ساتھ ثبوت بھی ہونا چاہیے، لیکن ای سی پی کے اعلان کردہ فیصلے میں یہ دونوں چیزیں غائب تھیں۔

اس سے قبل 16 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے فیصل واڈا کی جانب سے ای سی پی کے فیصلے کو چیلنج کرنے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کمیشن، سپریم کورٹ کے (حبیب اکرم کیس میں) احکامات پر عمل درآمد کرنے کا پابند تھا اور اسی کے مطابق اس نے عمل کیا۔

فیصل واڈا نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ 2021 کے اللہ ڈنو بھیو کیس میں پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ آرٹیکل 62 (ایف) (ون) کے تناظر میں ای سی پی قانون کی عدالت نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: دوہری شہریت کیس: الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کو نا اہل قرار دے دیا

انہوں نے دلیل دی کہ ای سی پی نے آئین کے آرٹیکل 225 کو بھی نظر انداز کیا جس کے تحت انتخابی درخواست ٹربیونل میں پیش کیے جانے کے سوا کسی ایوان (پارلیمنٹ) یا صوبائی اسمبلی کے انتخابات پر سوالیہ نشان نہیں لگایا جا سکتا۔

درخواست کے مطابق انتخابی مشق ایک نوٹی فکیشن کے اجرا کے ساتھ ختم ہوتی ہے، جس کے ذریعے امیدوار کو منتخب قرار دیا جاتا ہے، اس کے بعد صرف ایک ٹریبونل ہی الیکشن پر سوال اٹھا سکتا ہے اور سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔

درخواست گزار نے کہا کہ اگر اس معاملے میں ای سی پی کا استدلال قبول کر لیا گیا تو آرٹیکل 225 بے معنیٰ ہو جائے گا۔

الیکشن ایکٹ کا سیکشن (9) ای سی پی کو ٹربیونل کے اختیارات کو 60 دن کی مدت کے لیے استعمال کرنے کا محدود اختیار دیتا ہے، اگر واڈا کیس میں کمیشن کا مؤقف قبول کر لیا جاتا ہے تو آرٹیکل 218 اور سیکشن (8)(سی) کے تحت ای سی پی کے اختیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیکشن 9 بے کار ہو جاتا ہے۔

فیصل واڈا نے اپنی درخواست میں عدالت پر زور دیا کہ وہ حلف نامے کی زبان اور اس کے معنی کو مکمل طور پر ان ابتدائی الفاظ کے حوالے سے خاص طور پر دیکھیں کہ ’میں یقینی طور پر اس کی تصدیق کرتا ہوں اور اپنے بہترین معلومات اور یقین کے مطابق اعلان کرتا ہوں۔۔۔‘

یہ بھی پڑھیں: فیصل واڈا نااہلی کیس: ’آئندہ سماعت پر کوئی نہ آیا تو فیصلہ محفوظ کرلیں گے‘

درخواست میں انہوں نے کہا کہ یہ ابتدائی الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی مخصوص بات پر ایمانداری سے یقین رکھتا ہے، خاص طور پر کسی قانونی معاملے پر، تو اسے فوری طور پر مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا، اگرچہ اس کا یہ خیال کسی قانونی شق کے خلاف ہو‘۔

انہوں نے درخواست میں استدلال کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ حلف نامے کی زبان موضوعی ہے اور اس کے تعزیری نتائج ہیں، اس لیے اسے سختی سے سمجھا جانا چاہیے۔

درخواست میں کہا گیا کہ ای سی پی کو اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ درخواست گزار کوئی وکیل نہیں تھا اور جولائی 2018 کے عام انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے وقت دستیاب معلومات کے مطابق چیزوں کی ایک مخصوص کیفیت پر یقین رکھتا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں