صدر عارف علوی کل ملکی تاریخ میں دوسرے صدرِ مملکت بننے جارہے ہیں جو مسلسل 5 مرتبہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ اس سے پہلے یہ کارنامہ آصف علی زرداری نے انجام دیا تھا جو بغیر کسی رکاوٹ، شور شرابا، نعرے بازی کے خطاب کرتے رہے۔

غلام اسحٰق خان کو شور شرابہ، نعرے بازی اور گو بابا گو کے نعروں کی گونج 1990ء میں پہلی دفعہ سننے کو ملی تھی۔ یہ نعرہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے خود لگایا تھا کیونکہ غلام اسحٰق خان نے بطور صدرِ مملکت ان کی حکومت اپنی صوابدید کے مطابق آئین کی دفعہ بی (2)58 کے تحت تحلیل کی تھی اور پھر یہ رسم مستقل بنیادوں پر چلتی رہی۔

یہ کام میاں نواز شریف نے بھی غلام اسحٰق خان کے ساتھ کیا۔ فاروق لغاری پر نعرے لگنے کے ساتھ ساتھ چادر بھی پھینکی گئی۔

غلام اسحٰق خان پارلیمان کے اجلاس سے خطاب کررہے ہیں— فائل فوٹو
غلام اسحٰق خان پارلیمان کے اجلاس سے خطاب کررہے ہیں— فائل فوٹو

جنرل پرویز مشرف ایک ہی بار ایوان میں آئے اور خوب آؤ بھگت کی گئی، جس کے بعد پھر آئندہ 4 برس انہوں نے یہاں کا رخ نہیں کیا۔ پرویز مشرف کے نو رتن ساتھیوں میں سے ڈاکٹر شیر افگن نے آئین کی ایسی تشریح کی جیسے مارشل لا قوانین کے ذریعے بھلے لوگوں کو انصاف کے نام پر سزا دی جاتی ہے۔ ان موصوف کے بقول صدر پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی کوئی پابندی نہیں بلکہ صدر تحریری خطاب بھی بھیج سکتا ہے۔ بہرحال جنرل پرویز مشرف مکے دکھا کر ایسے گئے کہ پھر لوٹ کر نہ آئے اور نہ ہی تحریری یا تقریری خطاب آیا۔ صدر تو صدر ہوتا ہے اور وردی والا صدر تو دوہرا صدر ہوتا ہے۔

ہمارے دستور کی دفعہ 56 کے تحت صدر کسی ایک ایوان یا یکجا دونوں سے خطاب کرسکے گا اور اس غرض کے لیے ارکان کی حاضری کا حکم دے سکے گا۔ اسی دفعہ کی شق 3 کے تحت قومی اسمبلی کے لیے ہر عام انتخاب کے بعد پہلے اجلاس کے آغاز پر اور ہر سال کے پہلے اجلاس کے آغاز پر صدر یکجا دونوں ایوانوں سے خطاب کرے گا اور مجلس شوریٰ پارلیمنٹ کو اس کی طلبی کی وجوہ سے آگاہ کرے گا۔

صدرِ مملکت بالعموم حکومتِ وقت کی تجویز کردہ تقریر ہی کیا کرتا ہے۔ برطانیہ کی بھی یہی روایت ہے کہ بادشاہ اور ملکہ حکومت کی تجویز پر تقریر کرتی ہے۔

جنرل مشرف پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کررہے ہیں— اسکرین گریب
جنرل مشرف پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کررہے ہیں— اسکرین گریب

پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے مشترکہ اجلاس برائے صدارتی تقریر مؤخر ہوتا چلا آرہا ہے، وجوہات سادی سی ہیں کہ موجودہ صدر نے تو اس حکومت کے وزیرِاعظم کا حلف بھی نہیں لیا بلکہ بیماری اس قدر شدید تھی کہ وہ چھٹی پر چلے گئے اور پھر قائم مقام صدر صادق سنجرانی کو حلف لینا پڑا۔

لیکن پھر معاملات کو مزید خرابی سے بچانے کے لیے سیاسی رہنماؤں کے درمیان ڈائیلاگ کی بات شروع ہوئی مگر برف کو پگھلنے نہیں دیا گیا۔ عمران خان صاحب نے ہر روز کسی نہ کسی پر فقرہ کسا، آوازہ لگایا، مذاق اڑایا، دھمکی دی، غدار بھی بنا دیا، لیکن خود کا جب جی چاہا تب مختلف اہم شخصیات سے تنہائی میں ملاقاتیں کیں۔

ہر کسی نے سمجھایا کہ ہوش کے ناخن لو، ریاست ریاست ہوتی ہے، کھیل کا میدان اور بھارت کا کپتان بشن سنگھ بیدی اب کرکٹ نہیں کھیلتا اور نہ ہی این بوتھم اب مقدمہ کرتا ہے۔ بعض سیاسی و غیر سیاسی شخصیات کے ذریعہ پیغام رسانی بھی ہوئی۔

آصف علی زرداری پارلیمان کے اجلاس سے خطاب کررہے ہیں— فائل فوٹو
آصف علی زرداری پارلیمان کے اجلاس سے خطاب کررہے ہیں— فائل فوٹو

صدرِ محترم نے ٹی وی انٹرویو دینے شروع کردیے اور گیت گائے کہ میں بطور سیکرٹری جنرل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ان سب چیزوں کا محرک تھا جو اب نہیں ہوسکتیں یا نہیں ہو رہیں۔ الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتوں کے طریقہ کار، فنڈنگ، ای وی ایم سبھی کچھ تو صدرِ محترم فرما رہے تھے۔

معاملات درست نہ ہوسکے بلکہ اندازہ ہے کہ صورتحال واضح ہونے پر پی ٹی آئی کے چیئرمین کی زبان اور لائحہ عمل میں کوئی زیادہ تفریق نہ ہوئی لہٰذا ایسے میں حکومت کےلیے کیا راستہ رہ گیا تھا؟ آئینی طور پر اسمبلی کا اجلاس سال میں 130 دن ہونا ضروری ہے اور صدرِ مملکت ایسی گفتگو اور پالیسی ساز بیان دے رہے ہیں جو حکومت کی نظر میں ان کے لائحہ عمل کے مطابق نہیں تو کیا حکومت مشترکہ اجلاس میں صدرِ محترم کی تنقیدی تقریر کا اہتمام کرے؟

گویا دوسری مشکل آ پہنچی یعنی اجلاس بھی کرنا اور تقریر بھی ہونی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ کوئی درمیانی راستہ جس میں سیلاب، معیشت، استحکام، جمہوریت، ہم آہنگی، سیاسی مفاہمت اور اس سے ملتی جلتی مشکلات و مسائل پر کچھ کھٹی کچھ میٹھی تقریر پر اتفاق رائے ہوا ہے۔ یقیناً صدر اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی گفتگو کریں گے۔

صدر عارف علوی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کررہے ہیں— تصویر: ڈان نیوز
صدر عارف علوی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کررہے ہیں— تصویر: ڈان نیوز

انہوں نے تو سپریم کورٹ کو سازش بے نقاب کرنے کے لیے خط بھی تحریر فرمایا ہے، اب اس پر لب کشائی ہوگی یا نہیں اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم ارکانِ اسمبلی جب صدر کی تقریر پر آنے والے دنوں میں اظہارِ خیال کریں گے تو سیاسی فضا بہت اچھی نہیں رہے گی۔

ضرورت تو اس امر کی ہے کہ صدرِ محترم اپنی جماعت کو فیس سیونگ لے کر دیں تاکہ پارلیمانی جمہوری نظام میں مزید تقویت آئے اور ملک معاشی و سیاسی گرداب سے نکل آئے۔ سیلاب زدگان کی مدد حکومت ہی کا فرض ہے مگر خیبرپختونخوا اور پنجاب بھی اس صورتحال میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کریں۔

اس پارلیمنٹ کا تقریباً سال بھر ہی رہ گیا ہے مگر اب بھی وقت ہے کہ قانون سازی کے ذریعے معاملات کو طے کرلیا جائے۔ کچھ معاملات جو یقیناً بہت سنجیدہ اور دُور رس ہوں گے ان کے لیے فیصلہ پارلیمانی طریقوں اور آئین کے دیے ہوئے اصولوں کے مطابق ہی ہونا ہے۔ سڑکوں پر احتجاج ہوسکتا ہے مگر فیصلہ نہیں۔

فوری انتخابات کی تاریخ اور پھر مذاکرات کی بات بھی اب پیچھے رہ گئی ہے۔ وقت تیزی کے ساتھ ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ صورتحال کی نزاکت کو اگر آج نہ سمجھا گیا تو پھر بدامنی پھیل سکتی ہے، ایسے میں صدرِ مملکت کو چاہیے کہ وہ ریاست کے امین اور سربراہ بن کر ایسی تجاویز ایوان کے سامنے رکھیں کہ ہر کوئی ان پر غور و فکر اور عمل کرنے کو تیار ہو۔

یہ خطاب صرف کتابی نہیں عملی اقدامات کے لیے ہونا چاہیے اور ڈاکٹر عارف علوی کے لیے بھی ایک اہم موقع اور موڑ ہے، وہ چاہیں تو تاریخ میں گم ہوجائیں یا سمت دکھانے اور مصلحت اندیش اور مصالحت کروانے والے بن کر عوامی پذیرائی حاصل کریں۔ تحریک انصاف یا اتحادی جماعتیں کوئی آسمانی جماعتیں نہیں کہ ان کے پاس عقلِ کُل ہو اور انہیں کسی کے مشورے کی ضرورت ہی نہ ہو۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں