پی ٹی آئی کی لانگ مارچ کے خلاف حکومتی مہم پر پابندی کی درخواست

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2022
پیمرا کو لکھے گئے خط میں پی ٹی آئی نے حکومتی مہم کی نشاندہی کی — فوٹو: بشکریہ ٹوئٹر
پیمرا کو لکھے گئے خط میں پی ٹی آئی نے حکومتی مہم کی نشاندہی کی — فوٹو: بشکریہ ٹوئٹر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے رجوع کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے لانگ مارچ کے خلاف چلائی جارہی اشتہاری مہم کے خلاف پابندی کی درخواست کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے ہدایت جاری کی گئی ہیں جس میں لوگوں بالخصوص والدین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تحریک انصاف کے لانگ مارچ میں شرکت کی اجازت نہ دیں۔

مزید پڑھیں: عمران خان کا لانگ مارچ سے قبل ویڈیو پیغام

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اسلام آباد میں مارچ کی قیادت کر رہے ہیں تاکہ حکومت پر جلد انتخابات کے اعلان کے لیے دباؤ ڈالا جاسکے۔

پیر کو پیمرا کو لکھے گئے خط میں پی ٹی آئی نے حکومت کی جانب سے چلائی جارہی مہم کی مخالفت کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ پاکستان کے آئین کے تحت لوگوں کو احتجاج کا حق حاصل ہے۔

پارٹی کی کور کمیٹی کے رکن ڈاکٹر افتخار درانی کے دستخط شدہ خط میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے پرامن مارچ کر رہے ہیں۔

تاہم انہوں نے الزام لگایا کہ وفاقی حکومت نے پرامن مارچ کے خلاف ’نفرت انگیز‘ مہم شروع کی ہے کیونکہ وہ سیاسی میدان میں پی ٹی آئی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

یہ بھی پڑھیں: لانگ مارچ میں شرکا کی تعداد بڑھانے کیلئے عمران خان لاہور میں متحرک

افتخار درانی نے مزید الزام لگایا کہ مخلوط حکومت اپنے سیاسی ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لیے قومی خزانے کو استعمال کر رہی ہے۔

پی ٹی آئی نے اپنے خط میں کہا کہ اشتہاری مہم معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان تنازع اور نفرت پیدا کر سکتی ہے۔

پیمرا سے ان افسران کے خلاف بھی کارروائی کی درخواست کی گئی ہے جنہوں نے اشتہار دیا اور اسے چلا رہے تھے۔

اعظم سواتی کیس

ایک الگ پیش رفت میں پی ٹی آئی کے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کے ڈائریکٹر جنرل کے دفتر کا دورہ کیا اور انہیں پارٹی کے سینیٹر اعظم سواتی پر ہونے والے مبینہ تشدد سے آگاہ کیا۔

17 اکتوبر کو ڈاکٹر وسیم اور اعظم سواتی نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا تھا جس میں ان پر زور دیا گیا کہ وہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی حراست میں ان پر ہونے والے مبینہ تشدد کا ازخود نوٹس لیں۔

مزید پڑھیں: لانگ مارچ میں عوام باہر نہ نکلے تو یہ پاکستان کی شکست ہوگی، فواد چوہدری

اعظم سواتی نے حال ہی میں دو اعلیٰ سطح کے فوجی افسران کا نام لیا اور یہ الزام لگایا کہ وہ ان کی حراست میں تشدد میں ملوث تھے۔

سینیٹر اعظم سواتی کو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے گرفتار کیا تھا تاہم انہوں نے جن افسران کا نام لیا ان کا تعلق انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) سے تھا۔

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعظم سواتی نے آئی ایس آئی کے دو حاضر سروس افسران پر جسمانی تشدد کا الزام لگایا تھا، انہوں نے متعلقہ حکام پر زور دیا کہ افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے۔

اعظم سواتی کو گزشتہ ماہ کے اوائل میں اسلام آباد میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے خلاف متنازع ٹوئٹس کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا، انہیں آٹھ دن بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کا لانگ مارچ: تحریک انصاف اور حکمران اتحاد کس پریشانی سے دوچار ہیں؟

اپنی گرفتاری کے بعد سے اعظم سواتی یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ انہیں دوران حراست برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں