پُرامن اور خوشحال افغانستان، پاکستان کے مفاد میں ہے، بلاول بھٹو زرداری

اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2022
ان کا کہنا تھا کہ بالی میں ڈیموکریٹک فورم میں شرکت کرنے پر بہت خوشی ہے — فوٹو: اسکرین گریب / ٹوئٹر پیپلز پارٹی
ان کا کہنا تھا کہ بالی میں ڈیموکریٹک فورم میں شرکت کرنے پر بہت خوشی ہے — فوٹو: اسکرین گریب / ٹوئٹر پیپلز پارٹی

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ افغانستان ہمارا پڑوسی ہے، اور ہمیشہ رہے گا، میرے ملک کا مفاد ہے کہ افغانستان مستحکم، پُرامن اور خوشحال ملک بنے۔

بلاول بھٹو زرداری کا انڈونیشین ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت سیکیورٹی فراہم کرے گی اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے کام کرے گی، ہم سب پُرامن، خوشحال اور ترقی کرتا افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بالی میں ڈیموکریٹک فورم میں شرکت کرنے پر بہت خوشی ہے، پاکستان کی جمہوریت کی جدوجہد کے حوالے سے طویل تاریخ ہے، مجھے اس حوالے سے پاکستانی کی نمائندگی کرنے پر فخر ہے۔

معاشی بحران سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے دنیا کو ایک کے بعد ایک بحران کا سامنا ہے، ہم نے 100 سال میں ایک بار ہونے والی عالمی وبا کا سامنا کیا، اسی طرح یوکرین بحران کی وجہ سے دنیا بھر میں منفی معاشی اثرات مرتب ہوئے، اسی طرح موسمیاتی تباہی کا جس طرح دنیا کو سامنا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کی ایک مثال رواں برس کے اوائل میں پاکستان میں آنے والا سیلاب ہے، اس کی وجہ سے ہم سب معاشی مشکلات کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے سوسائٹی کو چیلنجز درپیش ہوتے ہیں، اور بعض اوقات اس کی وجہ سے نفرت کی سیاست جنم لیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب نئی نوجوان نسل کو جمہوریت اور تقسیم کی سیاست کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم امید کی سیاست کرکے نفرت کی سیاست کو ختم کریں گے، اور میں پُرامید ہوں کہ ہم سیاسی چیلنجز سے نبرد آزما ہوں گے، اپنی جمہوریتوں کو مضبوط کریں گے، جس کے بعد معاشی چیلنجز کا مقابلہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ انڈونیشیا کے وزیر خارجہ کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کیا ہے، تاکہ مشترکہ وزارتی کمیشن قائم کیا جاسکے، جس کے بعد دوطرفہ تعلقات کو وسعت دی جاسکے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے حقوق اور انہیں بااختیار بنانا ہمارے لیے نہایت اہم ہے، یہ انڈونیشیا کی بھی اولین ترجیح ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میں بالی میں صرف ڈیموکریٹک فورم میں شرکت کرنے نہیں آیا بلکہ سائیڈ لائن اجلاسوں میں ’خواتین کو بااختیار بنانے‘ کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کروں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کا پہلا مسلمان ملک ہے جس کی وزیر اعظم ایک خاتون منتخب ہوئی تھیں، ہم نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں خواتین کے حقوق اور انہیں بااختیار بنانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انڈونیشیا اور پاکستان کو دوطرفہ تعاون کو مزید وسیع کرنا چاہیے، دنیا کے سب سے بڑے اور دوسرے بڑے مسلم ملک کے درمیان دوطرفہ تعلقات اور معاشی تعلقات کے حوالے سے بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے، ہمیں کسی بھی معاملے پر ایک ساتھ کام کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نہ صرف معاشی تعلقات بلکہ لوگوں کے لوگوں کے ساتھ رابطے کو بڑھانے کے حوالے سے راستے تلاش کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح پاکستان اور انڈونیشیا کو عالمی فورمز جیسا کے او آئی سی، آسیان فورم میں بھی رابطوں کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔

’اسلاموفوبیا کے مسئلے پر بھی مل کر کام کرنے کے ضرورت ہے‘

دہشت گردی سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑنے کا تجربہ ہے، ہمیں ایک دوسرے کے تجربے سے مزید سیکھنے کی ضرورت ہے، اسی طرح ہمیں نفرت، تقسیم، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف شراکت قائم کرنے کی بھی ضرورت ہے، اسی طرح ہمیں اسلاموفوبیا کے مسئلے پر بھی مل کر کام کرنے کے ضرورت ہے۔

افغانستان میں پاکستان ناظم الامور پر حملے سے متعلق سوال کے جواب میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان کی وزیر مملکت حنا ربانی کھر کی سربراہی میں وفد نے افغانستان کا دورہ کیا تھا، جو تمام مسائل کے حوالے سے اچھا دورہ ثابت ہوا تھا، ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کا ہے، کوئی نہیں چاہتا کہ افغانستان دہشت گردی کا لانچنگ پیڈ بن جائے۔

’ پُرامن، خوشحال اور ترقی کرتا افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں’

ان کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت سیکیورٹی فراہم کرے گی اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے کام کرے گی، یہ امن اور خوشحالی کے لیے بنیادی ضرورت ہے، اور ہم سب پُرامن، خوشحال اور ترقی کرتا افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ افغانستان ہمارا پڑوسی ہے اور ہمیشہ رہے گا، میرے ملک کا مفاد ہے کہ افغانستان مستحکم، پُرامن اور خوشحال ملک بنے، اگر یہ چیزیں ہوتی ہیں کہ مجھے بڑے پیمانے پر افغانیوں کی ہجرت کے حوالے سے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، اسی طرح دہشت گردی سے منسلک مسائل پر بھی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے میرے ملک کے لوگوں اور افغانیوں کے لیے معاشی مواقع میسر آئیں گے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم سب لوگ جنگوں اور تنازعات کے حوالے سے بیمار اور تھک چکے ہیں، افغانستان میں ایک نسل کے بعد دوسری نسل، ایک جنگ کے بعد دوسری جنگ میں چلی جاتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں