وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم سوال پوچھتے ہیں کہ کس نے اس (عمران خان) کھلاڑی کو اجازت دی کہ دہشت گردوں کے پاؤں پکڑ کر مذاکرات شروع کرے، ان (دہشت گردوں) کو کس نے قید سے رہا کیا۔

گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو کی 15ویں برسی کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول کا کہنا تھا کہ آج ہم سوال پوچھتے ہیں کہ کس نے اس کھلاڑی کو، اس سلیکٹڈ کو یہ اجازت دی کہ ان دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیکے، کس نے اجازت دی کہ یہ پیر پکڑ کے مذاکرات شروع کرے، کس نے صدر پاکستان کو کہا اور کس نے عمران (خان) کو اجازت دی اور ہم نے یہ برداشت کیسے کیا؟

ان کا کہنا تھا کہ ہم سب مل کر اس پر غور کریں گے کہ دہشت گردی کی پالیسی پر نظرثانی کیسے کی جاسکتی ہے، ہمیں عمران خان کی جو پالیسی دہشت گردوں کے لیے تھی، اس کو چھوڑنا پڑے گا، پاکستان کی رٹ قائم کرنی پڑے گی، ایک بار پھر ایک ہو کر انتہا پسندوں اور دہشت گردوں سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مستقبل میں بھی دہشت گردی کو بھی پیپلز پارٹی ختم کرکے دکھائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردوں کی بیک بون ٹوٹ چکی تھا، ضرب عضب سمیت متعدد آپریشن کرکے جیت چکے تھے، کیا آپ کی قید میں تھے یا کسی اور ملک کے قیدی تھی، یا کہیں چھپ رہے تھے، ان میں ہمت نہیں تھا کہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہم سوال پوچھتے ہیں کہ کس نے اس کھلاڑی کو اس سلیکٹڈ کو یہ اجازت دی کہ ان دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیکے، کس نے اجازت دی کہ یہ پیر پکڑ کے مذاکرات شروع کرے، کس نے صدر پاکستان کو کہا اور کس نے عمران (خان) کو اجازت دی اور ہم نے یہ برداشت کیسے کیا؟ کہ پاکستان کے عوام سے پوچھے بغیر، پارلیمان سے پوچھے بغیر، دہشت گردوں کے متاثرین سے پوچھے بغیر کس نے ان کو اجازت دی کہ دہشت گردوں کے پاؤں پکڑ کے مذاکرات شروع کریں، ان (دہشت گردوں) کو کس نے قید سے رہا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کس نے دہشت گردوں کو پاکستان کے قید سے نکالا، کس نے یہ اجازت دی کہ افغانستان کی جیل میں تھے، ان کو بھی دعوت دے اور یہاں بسنے دے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہماری فوج کے شہدا نے جنوبی اور شمالی وزیرستان کو سابق فاٹا کو اپنے لہو اور قربانیوں سے دہشت گردوں سے پاک کیا، کس نے اجازت دی کہ دہشت گردی آج ایک بار پھر اپنا سر اٹھا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کس نے اجازت دی کہ وہ واپس بھی نہ آئیں اور ہتھیار بھی نہ پھینکیں، وہ آپ کے آئین اور قانون کو نہ مانیں، اور ہم ان دہشت گردوں کی مہمان نوازی کریں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ جس کی وجہ سے جو آپ کی قربانیاں ہیں، جو ہماری فوج اور پولیس کی قربانیاں ہیں، ان کی وجہ سے امن قائم ہوا تھا، ایک نالائق سیلکٹڈ کو ہم پر مسلط کرکے آج ایک بار پھر دہشت گردی پاکستان میں اپنا سر اٹھا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سب مل کر اس پر غور کریں گے کہ ہم دہشت گردی کی پالیسی پر نظر ثانی کیسے کی جاسکتی ہے، ہمیں عمران خان کی جو پالیسی دہشت گردوں کے لیے تھی، اس کو چھوڑنا پڑے گا، پاکستان کی رٹ قائم کرنی پڑے گی، ایک بار پھر ایک ہو کر انتہا پسندوں اور دہشت گردوں سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے کو تو شکست دلوائیں گے مگر ہمیں حساب چاہیے کہ یہ ہونے کیسے دیا، یہ گناہ ہم ایک بار پھر کیسے دہرا رہے ہیں، اس کا حساب پاکستان کے عوام کو چاہیے، ہمیں جواب دو کہ دہشت گردی کیوں ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ 15 سال گزر چکے ہیں، جب سے آپ کی بی بی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو آپ سے چھینا گیا، میں آپ سب کو پاکستان پیپلز پارٹی کے تمام جیالوں اور پاکستان کے سیاسی کارکنوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کو اور اس سوچ کو بتانا چاہ رہا ہوں، جو سمجھ رہے تھے کہ بی بی کو شہید کرکے ان کی جماعت کے سفر کو روک سکتے تھے، بتانا چاہتا ہوں کہ گڑھی خدا بخش میں ایک نظر دوڑائیں یہاں پندرہ سال بعد بھی انسانوں کا سمندر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہید محترمہ بے نظیر کے جیالے آج بھی یہاں موجود ہیں، شہید محترمہ بے نظیر کے بہن، بھائی اور سیاسی کارکن آج بھی یہاں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 15 سال کے بعد بھی اس ملک، اس جماعت کے سیاسی کارکن اور ہمارے عوام شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو نہیں بھولے ہیں، آج بھی ہم ان کے سیاسی فلسفے پر چلتے ہیں، سیاسی نظریے کے مطابق چلتے ہیں۔

’وہ گناہ کیا تھا جس کی وجہ سے بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا‘

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم پوچھتے ہیں کہ وہ گناہ کیا تھا جس کی وجہ سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا، کیا یہ گناہ تھا کہ وہ ایک محب وطن پاکستانی تھیں، کیا ان کا گناہ یہ تھا کہ وہ نہ صرف پاکستان کی لیڈر تھیں بلکہ وہ تو عالمی دنیا کی لیڈر تھیں، وہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن کر پوری مسلم امہ کا فخر تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو جمہوریت کی علمبدار تھیں، وہ آمروں کے لیے خوف کی بنیاد تھیں، انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا منہ توڑ جواب تھیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ دلیر قائد تھیں، وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر 30 سال جدوجہد کرتی رہیں مگر اپنے عوام، کارکن اور اپنے ساتھیوں کو ایک دن کے لیے بھی لاورث نہیں چھوڑا، وہ معاشی انصاف چاہتی تھیں تاکہ عام آدمی عزت کے ساتھ اپنی زندگی جی سکے، وہ سب کے لیے ایک ہی پاکستان چاہتی تھیں، وہ برابری پر یقین رکھتی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ سیاستدان ملک توڑنے کی سیاست کرتے ہیں، تقسیم کی بنیاد پر سیاست کرتے ہیں، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو یکجہتی پر یقین رکھتی تھیں، ملک جوڑ کر سیاست کرتی تھیں، اسی لیے ہم کہتے تھے اور کہتے ہیں کہ چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر، بے نظیر۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ پاکستان کو دنیا میں اکیلا نہیں دیکھنا چاہتی تھیں، پاکستان کو پوری دنیا کے ساتھ ملا کر اس ملک کی ترقی دیکھنا چاہتی تھیں، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اگر امریکا جاتی تھیں تو وہاں کی پارلیمنٹ ہے، ان کے سارے سینیٹرز اور سارے اراکین پارلیمان میں جمع ہو کر جلسہ بنا کر ان کی تقریر سنتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو تو ایسی لیڈر تھیں کہ امریکا کی مستقبل کی وزیر خارجہ کہتی تھی کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک جھلک دیکھنے کے لیے ، ان سے ہاتھ ملانے کے لیے ہیلری کلنٹن قطار میں کھڑے ہو کر انتظار کرتی تھی، یہ وہ لیڈر تھیں جس کو آپ نے شہید کیا، جب وہ چین جاتی تھیں تو پورا چین جانتا تھا کہ یہ بھٹو کی بیٹی ہیں، اور اسی طریقے سے ان کو عزت دی جاتی تھی۔

ان کا کہنا تھاکہ اسی طرح جب وہ یورپ جاتی تھیں تو وہ پوری دنیا مانتی تھی کہ یہ پاکستان کی نمائندہ تو ہے ہی، مگر یہ پوری دنیا کی عورتوں کی بھی نمائندہ ہے، یہ جمہوریت کی بھی علمبردار ہے، یہ انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والی ہے، یہ میڈیا کو آزادی دلوانے والی ہے، یہ اپنے ملک کے غریبوں، مظلوموں اور کسانوں کی اصل نمائندہ ہے، انہیں شہید کر دیا گیا۔

’بے نظیر بھٹو کہتی تھیں، دہشت گردی اور آمریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں‘

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کہتی تھیں کہ دہشت گردی اور آمریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، اور جتنا وہ آمریت کا مقابلہ کرتی تھیں اتنا ہی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرتی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آمریت بندوق کی طاقت سے عوام کی آزادی چھینتی ہے، آمریت بندوق کے زور پر آپ کے حقوق سلب کرتی ہے، اور دہشت گرد خوف پھیلا کر آپ کے حقوق سلب کرتے ہیں، خون کا ہولی سجا کر خوف کا ماحول پیدا کرکے آپ کے حق سلب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ انتہا پسند کبھی مذہب کو استعمال کرتے ہیں، کبھی قومی پرستی کو استعمال کرتے ہیں، آپ کو غلام بنانے کے لیے مذہب کو بھی بدنام کیا جاتا ہے اور مختلف قوموں کو بھی بدنام کیا جاتا ہے اور عوام کو حراساں کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہید بے نظیر بھٹو نفرت کی سیاست نہیں امید کی سیاست پر یقین رکھتی تھیں، وہ جھوٹ کی سیاست نہیں سچ کی سیاست پر یقین رکھتی تھیں، وہ تقسیم کی سیاست نہیں یکجہتی کی سیاست پر یقین رکھتی تھیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اب ہم پر فرض ہے کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے نظریے کے مطابق سیاست کریں، ان کے فلسفے کے مطابق سیاست کریں، ہم مل کر محنت کرکے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے نامکمل مشن کو مکمل کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ فساد کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنا ہے، ہم سچ کی سیاست کرکے کٹھ پتلیوں کی سیاست رد کریں گے، اس ملک کو جوڑیں گے، یکجہتی کے ساتھ سیاست کریں گے، لوگوں کو آپس میں لڑوائیں گے نہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو نے اپنے اپنے دور میں ہمیں حقوق دیے، 1973 کا آئین دیا، جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی، پھر آمریت کو شکست دی، اور جمہوریت کو بحال کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس طبقے کا خیال رکھنا ہے جس کا خیال شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو رکھتی تھیں، اگر انہوں نے 1973 کا آئین دیا تو شہید بے نظیر بھٹو نے اسی آئین کی بحالی کے لیے 30 سال جدوجہد کی، وہ جانتی تھیں کہ اس آئین میں میرے عوام کا حق ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے اٹھارہویں ترمیم کی صورت میں 1973 کا آئین بحال کیا تو وہ سابق صدر آصف علی زرداری کی وجہ سے ہوا، صوبوں کو ان کا حق دلوایا، جمہوریت کو بحال کیا، صوبوں کو معاشی وسائل بھی دلوائے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب مشرف یا اس کی باقیات کا مقابلہ کررہے تھے ہر بار ہم نے جمہوری طریقہ اپنا کر غیر جمہوری لوگوں کو خدا حافظ کہہ دیا، جیسے سابق صدر زرداری نے سابق آمر کو جمہوری طریقے سے شکست دلوایا، ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو تو ہے، مشرف تھا۔

’زرداری نے سیاسی دانشمندی سے مشرف کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکالا‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ سابق صدر زرداری نے سیاسی دانشمندی سے اپنے جمہوری طریقہ کار سے مشرف کو ایسے نکالا جیسے آپ مکھی کو دودھ میں سے نکالتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب آپ نے مطالبہ کیا کہ یہ سیلکٹڈ یہ کٹھ پتلی ہمارے آئینی حقوق کے خلاف سازشیں کررہا ہے، جب آپ نے کہا کہ یہ صوبوں کے وسائل پر قبضہ کررہا ہے، یہ بلوچستان اور سندھ کے جزیروں کو بھی نہیں چھوڑ رہا ان پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے، جیب پر ڈاکا ڈال رہا تھا، مہنگائی کا طوفان کھڑا کر رہا تھا،

انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کے سیاسی کارکنوں نے اس کو جئے بھٹو کے نعرے کے ساتھ للکارا ، اس پر جمہوری طریقے سے حملہ کیا، ویسے ہی آپ نے سلیکٹڈ کو بھی دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا، یہ بھی تاریخ ہے کہ اسے (عمران خان) تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سے نکالا، پہلی بار عدم اعتماد کے ذریعے پارلیمان نے ایک وزیر اعظم کو گھر بھیجا، فوج نے نہیں، عدالت نے نہیں پارلیمان نے بھیجا، یہ جمہوریت کی جیت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ سلیکٹڈ آپ کا کریڈٹ، آپ کی جدوجہد، سابق صدر آصف زرداری کا مختلف سیاسی جماعتوں سے دوستی کا کریڈٹ وہ وائٹ ہاؤس کو جوبائیڈن کو دینا چاہ رہے ہیں، اور کہتے ہیں کہ امریکا کے صدر نے مجھے نکالا، آپ کو امریکا کے صدر نے نہیں پیپلز پارٹی کے جیالوں نے نکالا۔.

’وائٹ ہاؤس کی نہیں، بلاول ہاؤس کی سازش نے آپ کو نکالا‘

وزیر خارجہ نے کہا کہ وائٹ ہاؤس کی سازش نہیں بلاول ہاؤس کی سازش نے آپ کو نکالا، یہ بند کمروں کی سازش نہیں تھی، ہم اس ملک کی سڑکوں اور پارلیمان میں کھڑے ہو کر آپ کو کہتے رہے کہ یہ کام کرنے جا رہے ہیں اور وہ کام کرکے دکھایا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے بڑھ کر آپ نے سیلکٹڈ کو تو خدا حافظ کہہ دیا مگر جو ان کے سہولت کار تھے، ان کو بھی بڑی عزت کے ساتھ خدا حافظ کہہ دیا، یہ آپ کی جیت اور جمہوریت کا انتقام ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جیسے مشرف ماضی کا حصہ بن چکا ہے، ویسے ہی یہ سلیکٹڈ (عمران خان) بھی ماضی کا حصہ بن چکے ہیں، ان کا کوئی مستقبل نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم روٹی کپڑا اور مکان کو اپنا بنیادی نعرہ سمجھ کر چلتے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ جان لو، اگر ملک مشکل ہے تو پیپلز پارٹی کے جیالے بچا سکتے ہیں، اور میں نے کسی کو نہیں دیکھا جس میں وہ صلاحیت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر دنیا بھر میں پاکستان کا وقار بلند کروانا ہے، دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہے، تو ماضی میں بھی ایک ہی جماعت نے یہ کام کیا ہے وہ پیپلز پارٹی ہے، اور آج بھی ایک ہی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے مخالف کو کہیں گے کہ پہلے انسان بنیں، پھر سیاست دان بنیں، پاکستان بچے گا کہ تو ایسا ملک ہو گا جس میں ہم وزیراعظم کی کرسی کے لیے لڑ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری وزیراعلیٰ سندھ سے بات ہوئی ہے کہ اب یہ ہماری باری ہے کہ ہم لینڈ ریفارمز کریں، ہم گھروں کی تعمیر کے لیے بلا سود قرض دیں گے، لیکن وہ گھر کچی آبادی میں ہے، اور وہ زمین صوبائی یا وفاقی حکومت کی ہے، وہ زمین حکومت کی نہیں رہے گی وہ آپ کی ہو جائے گی، سیلاب متاثرین کو حق ملکیت دلوائیں گے۔

’ادارہ سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، یہ جمہوری انتقام ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو نکالنے کے علاوہ آپ کی ایک اور بڑی کامیابی ہے کہ اس ملک کا سپہ سالار وردی نے کھڑے ہو کر تقریر کرکے مانتا ہے کہ سیاست میں مداخلت ہوتی تھی، اور کہتا ہے کہ پورا ادارہ فیصلہ کرتا ہے کہ توبہ کرتے ہیں کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے، یہ جمہوریت کا انتقام ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک و قوم سے جو وعدہ کیا گیا کہ ادارے غیر سیاسی ہوں گے، سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے، آئین کے پابند ہوں گے، ہم نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یہ وعدہ پورا ہوگا، اگر اسٹیبلشمنٹ بھی اسی عزم کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو پاکستان کی ترقی کوئی نہیں روک سکتا۔

’عمران خان کوشش کرے گا، فوج کو سیاست میں دھکیلا جائے‘

انہوں نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بزدل تو بنی گالا میں چھپ گیا، مگر اپنی سازشیں جاری رکھے گا، اس کی کوشش ہو گی کہ فوج کو سیاست میں دھکیلا جائے، کھلم کھلا آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، وہ کہتے ہیں کہ آئین توڑو اور عمران کی انگلی پکڑو، اس کی نیپی تبدیل کرو۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو ورغلایا جائے، دباؤ ڈالا جائے، ایسا ماحول پیدا ہو کہ ایک بار پھر میرے عزیز ہم وطنو۔۔۔ پاکستان پیپلزپارٹی ہر سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

’آخری وارننگ ہے، عمران خان پارلیمان آئے، ہر چیز پر بات ہو سکتی ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ ہماری اس (عمران خان) کے لیے آخری وارننگ ہے کہ پارلیمان میں واپس آؤ اور اپنی کرسی پر بیٹھو، اپنے آپ کو سیاستدان اور جمہوریت پسند کہتے ہو ، تو آئے پارلیمان میں بیٹھے اور اپنا کام کرے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پہلے پارلیمان میں آؤ، پھر سیاسی جماعتیں آپ سے باتیں کریں گی، ہم کالعدم تنظمیوں کے ساتھ بات نہیں کرتے، آؤ صاف اور شفاف انتخابات کی اصلاحات کے لیے اپنا حصہ ڈالو۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ آئیں، اپوزیشن کا کام کریں، آئیں ترامیم میں اپنا حصہ ڈالیں تو ہر چیز پر بات ہو سکتی ہے، نخرے کریں گے، سازشیں کریں گے، آرٹیکل 6 کے حرکت میں شامل ہوں گے تو ہم جانتے ہیں کہ آپ کا بندوبست کیسے کیا جاتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں